واشنگٹن: (ویب ڈیسک) کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی پر عالمی ادارہ صحت کے فنڈز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روک دیئے۔
تفصیلات کے مطابق صدی کی بدترین عالمی وبا سے نمٹنے میں ناکامی اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات پر ٹرمپ انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر وہ مستقل اپنا غصہ عالمی ادارہ صحت پر نکال رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے حوالے سے چین کی غلط معلومات کو فروغ دیا جس کی وجہ سے یہ کئی گنا بڑے پیمانے پر پھیل گئی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت اپنے بنیادی فرض کی ادائیگی میں ناکام رہا لہٰذا اسے ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا: کورونا صورتحال بے قابو، ایک روز میں 2407 افراد جان کی بازی ہار گئے
رائٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے سلسلے میں شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور میں اپنی انتظامیہ کو فنڈز روکنے کی ہدایت کرنے لگا ہوں۔ وائرس کے پھیلاؤ اور سنگین بدانتظامی میں عالمی ادارہ صحت کے کردار کا جائزہ لیا جائے گا اور اب ہم بات کریں گے کہ جو رقم عالمی ادارہ صحت کو جاتی تھی اس کا کس طرح استعمال کیا جائے گا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے طبی ماہرین کو بھیج کر صورتحال کا جائزہ لینے کا اپنا فرض انجام دیا ہوتا اور وائرس کے حوالے سے چین کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہوتے تو اس وائرس کو پھیلنے سے روک کر کئی ہزاروں افراد کو مرنے اور عالمی معیشت کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔
ایک ہفتے قبل بھی امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس پر تاخیر سے ایکشن لیا جبکہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کو بھاری فنڈز دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او چین کے زیادہ قریب ہے جس نے چین کے لیے بارڈر کھلے رکھنے کا غلط مشورہ دیا۔
امریکہ میں 26 ہزار سے زائد افراد کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 6 لاکھ 13 ہزار سے زائد افراد متاثر ہیں۔ امریکہ کی ریاست نیویارک کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔
گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ کوئی بھی ملک کورونا وائرس کے حوالے سے پابندیاں ہٹانے میں جلدی نہ کرے۔
ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ اوٹیڈروس ایڈانام کا کہنا تھا کہ پابندیاں جلد اٹھانے سےکورونا دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے اور اس کے معاشی اثرات بھی مزید طویل ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی تھی کہ تمام ممالک صحت عامہ کے بنیادی اقدامات کو مکمل طور پر مالی اعانت فراہم کریں۔ مریضوں کا پتہ چلائیں اور تشخیص کریں، کورونا وائرس کی معلومات جمع کریں۔
ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ نے کہا تھا ہم شراکت داروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نظام صحت کو مضبوط کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہیلتھ ورکرز کو ان کی تنخواہوں کی ادائیگی لازمی کریں اور صحت کی سہولیات کو ضروری طبی سامان کی خریداری کے لئے مالی معاونت کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
جان ہوپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال چین سے جنم لینے والے وائرس سے دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
رائٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے وسائل میں کمی کا مناسب وقت نہیں، وائرس کا پھیلاؤ اور اس کے خطرناک نتائج کو روکنے کے لیے یہ اتحاد اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر یکجہتی سے کام کرنے کا وقت ہے۔
اقوام متحدہ دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت کا سب سے بڑا ڈونر ہے جس نے 2019 میں 40 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کی تھی جو مجموعی بجٹ کا 15 فیصد بنتی ہے۔
آسٹریلین وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے امریکی صدر سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کو کسی حد تک جائز قرار دیا اور کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے چین کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے ویٹ مارکیٹس کھولنے کی اجازت دی جہاں ذبح کیے جانے والے جانور فروخت کیے جاتے ہیں اور جہاں گزشتہ سال ووہان میں پہلا کیس سامنے آیا تھا۔
لیکن انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے خصوصی طور پر پیسیفک خطے میں بہت کام کیا ہے اور ہم ان سے مکمل رابطے میں ہیں۔
یاد رہے کہ امریکا میں گزشتہ روز 2 ہزار 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد امریکی معیشت اور دیگر سرگرمیوں کو فوری طور پر کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے بحث شروع ہو گئی ہے۔ نیویارک شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اب تک کم از کم 10 ہزار افراد مر چکے ہیں۔
امریکا کی جانب سے فنڈز روکے جانے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان سمیت دیگر ممالک اور ماہرین نے خبردار کیا کہ فنڈز روکنے سے ادارے کی وائرس سے لڑنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ٹرمپ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بدترین بحران میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صدر اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے عالمی ادارہ صحت، سیاسی مخالفین، چین، اپنے پیشرو کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں تاکہ اس حقیقت سے لوگوں کی توجہ ہٹا سکیں کہ ان کی انتظامیہ اس بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی اور اب اس سے ہزاروں امریکی انسانی جانوں کا ضیاں ہو رہا ہے۔
امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے غلط سمت میں خطرناک قدم قرار دیا ہے۔
امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر پیٹریس ہیرس نے کہا کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے کووڈ-19 کو شکست دینے میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور انہیں اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔
جان ہوپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر امیش ایڈلجا نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے اس وبا کے درمیان میں غلط پیغام جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت سے غلطی ہوئی جیسا کہ 2013 اور 2014 میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے وقت ان سے غلطی ہوئی تھی۔