صدارتی الیکشن: افغان جنگ امریکیوں کیلئے درد سر، مسئلہ تاحال حل ہونے کا منتظر

Published On 02 November,2020 11:53 pm

نیو یارک: (زکریا ایوبی) امریکی صدارتی الیکشن میں افغان جنگ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ 19 سال سے جاری رہنے والی افغان جنگ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی اپنی پیشروؤں سے مختلف رہی۔ امریکیوں کے لیے دردِ سر بنا ہوا مسئلہ تاحال حل ہونے کا منتظر ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر میں پھیلی اپنی افواج کو واپس لانے کے دعوے کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا، تاہم پچھلے 20 برسوں سے امریکا کے لیے افغان مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے۔ افغان جنگ سے متعلق ٹرمپ کا رویہ کیسا رہا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغان مسئلے پر اپنے چار سالہ دور میں " کبھی ہاں کبھی ناں " کی پالیسی پر گامزن رہے، مگر انہی کے دور میں امریکا کی افغان پالیسی یکسر تبدیل ہوگئی اور 19 سال سے جاری کشیدگی کوطول دینے کے بجائے سیاسی حل کی پالیسی اپنائی گئی۔

امریکی صدر نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر افغانستان پر ‘‘مدر آف آل بم‘‘ گرانے کا حکم دیا، 13 اپریل 2017 کو ٹرمپ کے حکم پرامریکا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم ننگرہار میں گرایا گیا، تاہم یہ بم بھی داعش کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے تعلقات ہوں یا افغانستان سے فوجی انخلاء، ٹرمپ، جو بائیڈن موقف ایک ہے: مائیکل کگلمین

ٹرمپ نے ہلمند کو ایک بار پھر امریکی افواج کے حوالے کرنے کی منظوری بھی دی جو غیر ملکی افواج کے لیے موت کی وادی بن گیا تھا، 2017 میں ہی ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا، 21 اگست 2017 کو ورجینیا میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان سے انخلاء چاہتے ہیں۔

2018 کا آغاز ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی،یکم جنوری کو ٹویٹر پر ٹرمپ نے پاکستان پر عدم تعاون کا الزام لگایا اور بے وفائی کا شکوہ کیا، پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔

پھر اُسی سال ہی وزیر اعظم پاکستان کو خط لکھ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی درخواست کردی، ستمبر 2018ء میں ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو امریکا کا نمائندہ خصوصی مقرر کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی۔

2019 کے شروع میں طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات پر پیش رفت ہوئی، فروری 2019ء میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمےخلیل زاد اورطالبان کےنمائندے ملا عبدالغنی برادر کے درمیان امن مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق رائےطےپایا۔ طالبان انٹرا افغان ڈائیلاگ، سیاسی ڈھانچے کی تشکیل اور جنگ بندی سےمتعلق بات چیت پرآمادہ ہوگئے۔ لیکن7 ستمبر 2019 کو صدر ٹرمپ نے پھریوٹرن لیا، کابل میں طالبان کےہاتھوں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو جواز بنا کرمذاکرات منسوخ کر دیئے۔ اس وقت یہ بھی انکشاف ہوا کہ کیمپ ڈیوڈ میں صدر ٹرمپ، افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے درمیان ملاقات طے تھی، جومنسوخ ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی الیکشن: ٹرمپ کی پارٹی کو صدارت کیساتھ سینیٹ میں برتری برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش

2020ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے، صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے افغان جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، اس لیے طالبان سے مذاکرات کی کوششیں تیز کردی گئیں، 13 فروری 2020ء کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بڑا اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

29 فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پاگیا۔ جس کے تحت امریکا نے افغانستان سے مشروط انخلاء پر رضا مندی ظاہر کر دی اور طالبان بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے۔

12 ستمبر 2020 کو دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوا جہاں افغانستان میں مستقبل کے سیاسی نظام اور اختیارات کی تقسیم پربات چیت جاری ہے۔