واشنگٹن: (ویب ڈیسک) افغان امن عمل میں امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن عمل میں امریکا کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ خطے کیلئے اقتصادی ترقی اہم ہے اور افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔
امریکی کانگریس میں خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعت کے دوران امریکی کانگریس ویمن سارا جیکبز کی جانب سے خلیل زاد سے پوچھا گیا کہ افغان امن عمل کو پائیدار بنانے میں کن چیلجنز کا سامنا ہے؟
سوال کا جواب دیتے ہوئے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکا ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ یہ امن عمل کامیاب ہو۔ ہمیں موجودہ حالات میں مذاکراتی عمل کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی حوصلہ افزا حمایت حاصل ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو طالبان پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ امریکا طالبان اور افغان حکومت دونوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ طالبان کے کچھ مطالبات ہیں جیسے کہ وہ کابل حکومت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں، وہ ان قیدیوں کے نام اقوام متحدہ اور امریکا کی کالعدم ناموں کی فہرستوں سے نکلوانا چاہتے ہیں جن کو پورا کر کے ہم کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ جنگ کئی برسوں سے جاری ہے، کچھ اس سے منافع بھی کما رہے ہیں لیکن امریکا اس جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
افغانستان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں پاکستانی کردار سے متعلق زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستانی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل اقتصادی مفادات میں ہی ہے۔ پاکستان کو اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن میری رائے میں جنرل باجوہ کا حالیہ دورہ کابل کافی مثبت تھا۔
افغان امن عمل میں امریکا کے خصوصی نمائندے نے امریکی امور خارجہ کی کمیٹی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغان صدر غنی سمجھتے ہیں کہ امن معاہدے کے ذریعے ہی خطے میں امن اور استحکام آ سکتا ہے لیکن اس معاہدے کی کامیابی کے لیے اسے افغان عوام، خواتین اور تمام اہم سٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو خطے کی پراکسی جنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، لہٰذا خطے کا کردار بہت اہم ہے اور ہم یہی کوشش کر رہے ہیں کہ اس امن معاہدے کو خطے کی حمایت حاصل ہو۔ خطے کی ترقی کے لیے وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور افغانستان کے مابین تجارتی رابطہ بہت اہم ہے۔