قاہرہ: (سپیشل فیچر) انور سادات نے مصر میں ہر قسم کی طاقت حاصل کر لی تھی مگر 6 اکتوبر 1981ء کو وہ عین اس وقت قتل کر دئیے گئے جب قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کیساتھ فتح سوئز (1973ء) کی تقریب میں شریک تھے۔
سابق مصری صدر انور سادات (1918-1981ء) کے قتل کے بعد امریکا کے ٹائم میگزین (19 اکتوبر 1981ء) نے اس واقعہ کے بارے میں خصوصی مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون کا آغاز اس نے نپولین کے ایک قول سے کیا۔
نپولین نے اپنے آخری زمانہ میں سوال کیا:
‘’کیا تم جانتے ہو کہ دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے؟‘‘
پھر خود ہی جواب دیا: کہ وہ چیز طاقت کی یہ بے بسی ہے کہ اس کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کر لیتا ہے۔‘‘آخر انسان کا انجام موت اور دو گز زمین ہے ۔
انور سادات نے مصر میں ہر قسم کی طاقت حاصل کر لی تھی مگر 6 اکتوبر 1981ء کو وہ عین اس وقت قتل کر دئیے گئے جب قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کے ساتھ فتح سوئز (1973ء) کی تقریب میں شریک تھے۔
انور سادات کی عالیشان نشست گاہ میں آنے والے تمام لوگوں کی جانچ مخصوص آلات کے ذریعہ کی جا رہی تھی۔
حتیٰ کہ پریڈ میں حصہ لینے والے تمام فوجیوں کی رائفلوں کو کارتوس سے خالی کر دیا گیا تھا۔ مگر سادات کی فوج ہی کا ایک آدمی پریڈ سے نکل کر تیزی سے ڈائس کی طرف آیا اور قبل اس کے کہ حفاظتی عملہ اس کو روکتا، وہ سادات کو اپنی گولی کا نشانہ بنا چکا تھا۔
لیفٹیننٹ خالد استانبولی شدت جذبات کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے خفیہ منصوبہ بنایا اور فتح کی پریڈ کے دن منصوبے کے مطابق سادات کو گولی مار دی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہن اور جذبات تلوار سے زیادہ طاقتور ہیں لیکن تاریخ میں بہت کم ایسا ملتا ہے کہ جذبات کا درست استعمال کیا گیا ہو۔