لاہور (سمیعہ اطہر)گزشتہ دنوںمیڈیا پر ایک خبر سامنے آئی ،"یورپ جانے کے خواہشمند تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی،60افراد جان سے گئے جبکہ 81سے زائد بچ کر بھی نہ بچ سکے، اب دیار غیر کی جیلوں میں نہ جانے کب تک قید کاٹیں گے،ان کا تعلق مختلف غریب ممالک سے تھا جن میں پاکستان بھی شامل ہے،حالیہ واقعہ میں جان سے جانے والے افراد میں 28 پاکستانی ہیں۔
اتنے بے وقعت ہیں یہ غریب کہ اب تک حکومت پاکستان نے ان کی تعداد یا اتہ پتہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے،نہیں معلوم یہ پاکستان کے کون سے کونے میں کونسے گھر وں میں رہتے تھے ؟ ان کے سامنے کیا مسائل کھڑے تھے ؟ ان پر کنبے کی کیا ذمہ داری تھی ؟کسے بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے رقم چاہیے تھی ؟کتنوں نے بچوں کے سکولوںکے اخراجات اٹھانا تھے ؟
اپنو ں کی محرومیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے وطن میں کیا کیا جتن کر کےدیکھے تھے ؟پھر کونسا شیطان ملا تھا جس کے جھانسے میں پھنس گئے تھے ؟اس شیطان نے کیا کیا سنہری خواب دکھائے تھے ؟چند روپوں کے عوض سب مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی ؟ غیر قانونی طور پردیار غیر لے جانے کا آسرا دیا تھا ؟
گھر میں سے کس کس کو ماں نے ،زندگی کی ساتھی نے ،بے حد محبت کرنے والی بیٹی نے روکا تھا؟پھر بھی اُس شیطان نے کیسے چٹکیوں میں سب مشکلات دورہونے کا خواب دکھا کے آمادہ کیا تھا ؟گھر سے نکلتے ہوئے بار بار نگاہ پلٹی تھی ؟اس نگاہ میں کتنے خواب تھے ؟
ایک بار وہاں چلا جاؤں بہت محنت کروں گا جب پاؤنڈز میں رقم بھیجوں گا تو یہاں بہت پیسے بنیں گے ،آرام سے بچوںکی فیس ادا ہوجائے گی ، گھر کا راشن آجائے گا ، بہن کی شادی کے لئے بھی کچھ جُڑ جائے گا سب کتنا اچھا ہو جائے گا !!جب واپس آؤں گا تو کوئی دکھ نہ دیکھوں گا !!
یہ بھی پڑھیں: اٹلی: تارکین وطن کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی، 28 پاکستانیوں سمیت 59 افراد جاں بحق
آہ!!کیا معلوم تھا کہ اب نہ واپس آؤں گا نہ دُکھ دیکھوں گا ! ارے نادان !دُکھ تو اور بڑھ گئے ہونگے ماںگود اجڑ جانے پر سینہ کوبی کرتی ہو گی، بیوی سفید چادر اوڑھے سائبان چھن جانے پر خون کے آنسو روتی ہو گی ، بے انتہا محبت کرنے والی بیٹی باپ کی موت پر زندگی بھرروئے گی اور چین نہیں ملے گا۔
جو معاشی مسائل سے لڑنے والا تھا وہ ہی چلا گیا تو کیا بچوں کا سکول اور کیا گھر کا راشن،مسائل دگنے ہو کے سر اٹھا ئیں گے ،مسیحا موت کی گود میں سو چکا ہو گا ، لاشیں بھی پتہ نہیں پہنچ پائیںگی یا سمندر میں مچھلیوں کی خوراک بن جائیںگی ،سب ڈوبنے والوں کوہی قصور وار ٹہرائیں گے۔
باہر جانے کی لالچ کی سزا کہہ کر اس خبر کو بھول جائیں گے،کوئی ان کے اندر کے دکھوں اور ان کے پیچھے کہانیوں کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرے گا ،یہ باب اسی طرح بند ہو جائے گااسی طرح پھر کسی گھر میں یہی مسائل اٹھیں گے یہ شیطان پھر سے ملیں گے کشتیاں پھر سے ڈوبیں گی ،ہم وطن پھر سے لاپتہ ہونگے، کچھ جیلوں میں نامعلوم قیدیوں کی طرح سال ہاسال سڑھتے رہیں گے اور کچھ پانی میں اپنی جان دے دیں گے۔
ہمارے حکمران اسی طرح بانسری بجاتے رہیں گے جیسے روم کے نیرو ہیں،ان کا تو اس سب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ،حکمرانوں کو یہ سب جاننا ہی نہیں ہے کہ غریب لوگ کیسے ایک ایک پیسے کے لئے ایڑھیاں رگڑتے ہیں؟کیسے اپنے ملک میں ان کو روزگار نہیں ملتا،کیسے وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں؟ یہ شیطان ایجنٹ کون ہیں جو غریبوں کو باہر بھجوانے کا جھانسا دیتے ہیں، یہ کس راستے سے لوگوں کو یہاں سے یورپ بھجواتے ہیں؟کون کون ان کی مدد کرتا ہے ؟کون کون کمیشن کھاتا ہے ؟کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان کو روک سکے ؟؟؟
کشتی کے ذریعے یورپی ممالک کی طرف سفر کرنے والے افراد اپنی محنت سے کمائی ہوئی جمع پونجی ایجنٹوں کو دے کر نہ صرف یہ بھاری رقمیں بلکہ اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں،عام طور پر غریب ممالک کے باشندے نسبتاً ترقی یافتہ ممالک میں داخل ہونے اور رہائش اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو گنجان آباد ترقی پذیر غریب یا پھر امن و امان کے مسائل کا شکار ہیں ، پاکستان بھی انھی میں سے ایک ہے۔
جو پاکستانی ڈوبے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق گجرات ، کھاریاں اور منڈی بہاؤالدین جیسے علاقوں سے ہے،یوں تو لو گ کینیڈا امریکہ برطانیہ بھی غیر قانونی طور پر جاتے ہیں لیکن یورپی ممالک خاص طور پر اٹلی بحیرہ روم کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے زیادہ آسان ہے ، لیبیا سے روزانہ سینکڑوں تارکین کو بحیرہ روم میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے ،غیر قانونی کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
گزشتہ سال2000 افراد ڈوب کے اپنی جان دے چکے ہیں،اعدادوشمار کے مطابق یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میںدوگنی ہوسکتی ہے ،کشتیاں اسی طرح ڈوبتی رہیں گی، لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے ،حکمران اسی طرح مذمتی بیان دے کر جان چھڑا تے رہیں گے۔