ماسکو: (ویب ڈیسک ) بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت روس کے نیم فوجی دستے ویگنر کے سربراہ ایوگینی پریگوزن بیلاروس منتقل ہوجائیں گے تاکہ روس کی فوجی قیادت کے خلاف مسلح بغاوت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے نیم فوجی دستے ویگنر کے کمانڈر اور روسی حکومت کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں ، معاہدہ ہونے کے بعد کریملن کا کہنا ہے کہ ویگنر کے سربراہ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی اور وہ پڑوسی ملک بیلاروس منتقل ہو جائیں گے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ویگنر کے کمانڈر یوگینی پریگوزین کے خلاف فوجی بغاوت کے الزامات ختم کر دیے جائیں گے جبکہ ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی۔
علاوہ ازیں جن جنگجوؤں نے اس بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کریں گے ، وزارت دفاع یکم جولائی تک تمام خود مختار رضاکار فورسز کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کاکہنا ہے کہ لوکاشینکو نے روسی صدر ولادی میر پوتین اور پریگوزن کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی پیش کش کی تھی ۔
اگرچہ خود روسی صدر پیوٹن نے اس سے قبل بغاوت میں حصہ لینے والے جنگجوؤں کو سزا دینے کا عہد کیا تھا ، لیکن پیسکوف نے کہا کہ معاہدے کا "اعلیٰ مقصد" تصادم اور خونریزی سے بچنا تھا۔
اس سے قبل پریگوزن نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گیراسیموف کو ان کے حوالے کیا جائے۔
دوسری جانب روسی دارالحکومت ماسکو کے رہائشی نیم فوجی دستے اور روسی فوج کے درمیان تنازع پر پریشانی کا شکار ہیں جبکہ یوکرین روس کے ’اندرونی ہنگامے‘ پر خوش دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ روس کے نیم فوجی دستے ویگنر نے روسی فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ویگنر گروپ کی فورسز کی جانب سے مسلح بغاوت غداری ہے اور جس نے بھی روسی فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اسے سزا دی جائے گی۔