خرطوم : ( ویب ڈیسک ) سوڈان میں سوڈانی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز ( آر ایس ایف ) میں لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سوڈانی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز ( آر ایس ایف ) کے درمیان ایک بار پھر سے لڑائی شروع ہوگئی ہے اور شدید لڑائی نے دارالحکومت خرطوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ بیماری اور غذائی قلت نے بے گھر ہونے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
خرطوم کے شمالی حصے میں اتوار کی صبح لڑائی شروع ہوئی جس کے بارے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف نے سوڈانی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی، دارالحکومت کے شمالی حصوں میں فضائی حملے کیے گئے اور شہر کے مشرق میں بھاری گولہ باری کی گئی۔
آر ایس ایف نے کہا کہ اس نے سوڈانی فوج کا ایک لڑاکا طیارہ بحری شہر میں مار گرایا۔
خیال رہے کہ بحری کو خرطوم نارتھ بھی کہا جاتا ہے اور یہ ان تین شہروں میں سے ایک ہے جو گریٹر خرطوم کو بناتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق آرمی چیف عبدالفتاح البرہان کی وفادار فورسز اور آر ایس ایف کے درمیان 15 اپریل سے جاری لڑائیوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
طبی خیراتی ادارے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں جنوبی سوڈان کی سرحد سے متصل وائٹ نیل ریاست کے نو کیمپوں میں پھنسے ہوئے بے گھر سوڈانیوں کی مشکلات کے بارے میں بتایا کہ صورتحال سنگین ہے جبکہ انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بیماری اور غذائی قلت ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے خطرہ ہے جو مسلسل لڑائی سے بے گھر ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سوڈان میں ریکارڈ 25 ملین افراد کو انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے۔
خرطوم کے علاوہ بدترین لڑائی دارفور کے مغربی علاقے میں ہوئی ہے جہاں کے باشندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، امریکا اور دیگر کا کہنا ہے کہ شہریوں کو آر ایس ایف اور اتحادی عرب ملیشیاؤں نے ان کی نسلی بنیادوں پر نشانہ بنایا اور مارا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ریکارڈ سے کہیں زیادہ ہے جبکہ بہت سے زخمی ہسپتالوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور خرطوم اور دارفور کی گلیوں میں لاشیں سڑ رہی ہیں۔
سوڈانی ڈاکٹرز یونین نے ہفتے کے روز آر ایس ایف پر الزام عائد کیا کہ اس نے ملک میں ابھی بھی کام کرنے والوں میں سے ایک شہدا ہسپتال پر چھاپہ مارا ہے اور عملے کے ایک رکن کو ہلاک کر دیا ہے تاہم آر ایس ایف نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
جنگ نے ملک کے پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر کو مزید تباہ کر دیا ہے جس سے رہائشیوں کو سخت گرمی میں پانی اور بجلی کی قلت جیسے سنجیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دارفور کی بگڑتی ہوئی صورتحال خطے کی دردناک تاریخ کی تاریک یاد دہانی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے دارفور میں موجودہ لڑائی میں ممکنہ نئے انسانیت کے خلاف جرائم کے بارے میں خبردار بھی کیا ہے۔
امدادی تنظیمیں متحارب فریقوں سے اپنی اپیل دہرا رہی ہیں کہ وہ محفوظ راہداری کھولیں تاکہ وہ زخمیوں اور لڑائی سے بے گھر ہونے والوں تک پہنچ سکیں۔