غزہ: (دنیا نیوز، ویب ڈیسک) الجزیرہ کے صحافیوں کو نشانہ بنانے پر دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں جبکہ فلسطین نے الجزیرہ کے پانچ صحافیوں کی تدفین کر دی ہے، ان کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔
قطری نشریاتی ادارے کے مطابق دنیا بھر میں بشمول لندن، برلن، تیونس اور رام اللہ مظاہرے کیے جا رہے ہیں تاکہ اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی جا سکے۔
یورپی یونین، چین، اور اسرائیل کے قریبی اتحادی جرمنی نے بھی صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ نے اس حملے کو بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل غزہ پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں فجر سے قبل کے حملوں میں امداد کے متلاشی 9 افراد سمیت مزید 46 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں ایک اور فلسطینی بچہ، محمد زکریا خضر غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار گیا ہے، بھوک سے مرنے والوں کی تازہ ترین تعداد 222 ہو گئی ہے، جن میں 101 بچے شامل ہیں۔
اسرائیل کی غزہ پر جاری بمباری میں اب تک کم از کم 61,499 افراد شہید اور 153,575 زخمی ہو چکے ہیں۔
اُدھر آزادیِ اظہار کی عالمی تنظیم پین امریکا کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے پانچ صحافیوں کا اسرائیل کے ہاتھوں قتل انتہائی تشویشناک ہے اور یہ جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
فریڈم ٹو رائٹ سنٹر کی ایم ڈی لیزل گرنٹھولٹز نے کہا کہ یہ حملہ نہ صرف صحافیوں کی پوری ایک ٹیم کو ختم کر گیا، ایک ایسے وقت میں جب غزہ سے خبریں دینے والی آوازیں پہلے ہی بہت کم رہ گئی ہیں بلکہ مزید چھ فلسطینیوں کی جان بھی لے گیا، اس ہلاکت خیز یلغار میں جو پہلے ہی ہزاروں جانیں نگل چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حقیقت کہ انس الشریف کے اہلِ خانہ، دوست، اور ساتھی، اب انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے یا سوگ منانے کی بجائے اسرائیل کے بے بنیاد الزامات کے دفاع میں لگے ہیں، یہ بات اس جرم کی بے حسی کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔
پین امریکا نے یہ بھی بتایا کہ انس الشریف اس رائٹرز ٹیم کا حصہ تھے جس نے 2024 میں پلٹزر انعام جیتا تھا۔
دنیا بھر میں اسرائیل کی جانب سے غزہ سٹی میں الجزیرہ کے عملے کے قتل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے میں سیکڑوں فلسطینیوں نے شہر کی سڑکوں پر مارچ کیا، فلسطینی پرچم لہرائے اور اپنے شہید صحافی ساتھیوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
تیونس کے دارالحکومت بھی سیکڑوں افراد نے اسرائیلی حملوں پر احتساب کا مطالبہ کیا، جرمنی کے دارالحکومت برلن اور نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں بھی ان صحافیوں کی یاد میں مظاہرے اور تقریبات ہوئیں۔
اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی، لندن، ناروے کے دارالحکومت اوسلو اور سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں بھی مظاہروں کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں سینکڑوں مظاہرین ایک ایسی عمارت کے باہر جمع ہوئے جس میں کئی میڈیا اداروں، جیسے این بی سی، فاکس نیوز، آئی ٹی این، اور دی گارڈین کے دفاتر موجود ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان اداروں کی غزہ میں نسل کشی کی کوریج نہ کرنے نے اسرائیل کو اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں خصوصاً صحافیوں، کو قتل کرنے کی اجازت دی۔