افغان طالبان کی علم دشمنی، کتب پر پابندی، فکری آزادی تباہی کے دہانے پہنچ گئی

Published On 31 December,2025 09:46 am

کابل: (دنیا نیوز) افغان طالبان رجیم نے افغانستان میں علم، تحقیق اور فکری آزادی کے خلاف سخت ترین اقدامات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رکھیں، طالبان کی علم دشمن پالیسیوں کے باعث نوجوان نسل کا تعلیمی اور فکری مستقبل شدید خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یونیورسٹیاں عملی طور پر خاموش، کتب خانے بند جبکہ تدریسی، نصابی اور تحقیقی سرگرمیاں مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔

افغان جریدہ ہشت صبح نے ایک بار پھر طالبان کی علم دشمن پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سینکڑوں تعلیمی، تاریخی اور سیاسی کتب کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے جس سے تعلیمی و فکری آزادی شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے۔

دی افغانستان اینالیسٹس نیٹ ورک (AAN) کے مطابق طالبان نے 670 سے زائد یونیورسٹی کی نصابی کتب اور سینکڑوں عوامی مطالعے کی کتابوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق، جمہوریت، انتخابی نظام اور آئینی قانون سے متعلق تعلیم کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے جبکہ سوشیالوجی، فلسفۂ اخلاق اور دیگر اہم مضامین بھی نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔

اے اے این کے مطابق خواتین اور ایرانی مصنفین کی تحریروں کو بھی ممنوعہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے، طالبان نے افغانستان کی تاریخ اور سیاست سے متعلق اہم کتب پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

اے اے این نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ علم دشمن کارروائیاں معلوماتِ عامہ کو محدود کرنے، تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور فکری آزادی کو مکمل کنٹرول میں لینے کا ایک خطرناک منصوبہ ہیں۔

سال 2025 میں افغان طالبان رجیم کے دور میں تعلیمی شعبہ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم شدید بحران کا شکار رہی، یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2025 میں افغانستان میں 2.13 ملین سے زائد بچے سکولوں سے باہر رہے جن میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں، 2.2 ملین نوجوان افغان خواتین ثانوی تعلیم سے محروم رہیں۔

ماہرین کے مطابق طالبان کی علم دشمن پالیسیاں افغانستان کی تاریخ، جمہوریت اور انسانی حقوق کو بری طرح پامال کر رہی ہیں، تعلیمی اور فکری پابندیوں کے باعث افغان نوجوان انتہاپسندی کی دلدل میں دھکیلے جا رہے ہیں جو نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے لیے بھی ایک سنگین سکیورٹی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔