لاہور: ( روزنامہ دنیا ) ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، فن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار شفاف ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ ان ملکوں کے شہری دنیا میں سب سے زیادہ خوش تصور کیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں ؟ سادہ سی بات ہے ان ملکوں کے شہری اپنا ٹیکس ایمانداری سے بخوشی ادا کر تے ہیں۔ یہ ٹیکس لوگوں کو بہتر سے بہتر خدمات فراہم کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ ان ملکوں کے شہریوں کو سو فیصد یقین ہے کہ ان کے ٹیکس میں ایک پیسے کی بھی ہیرا پھیری نہیں ہو گی۔
ان ممالک میں ٹیکس آمدن جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ صورتحال نہیں۔ یہاں جی ڈی پی میں ٹیکس کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے یہ ہمارے ٹیکس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یقینی طور پر یہ صور تحال چند روز میں پیدا نہیں ہوئی۔ اب اسکی اصلاح بھی دنوں میں ممکن نہیں۔ لیکن حکومت فوری نتائج پر مصر ہے۔ جس کے نتیجے میں معیشت کا پہیہ رک چکا ہے۔ ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے، بجلی گیس کے بڑھتے نرخوں اور شرح سود میں اضافے سے کاروبار میں مندے کی صدائیں اٹھ رہی تھیں۔ زائد پیداوار ی لاگت سے صنعتکار پر یشان تھے۔ رہی سہی کسر نان فائلرز پر قد غن نے پوری کر دی۔ جس کے تحت کوئی نان فائلر 1300 سی سی سے زائد کی گاڑی خر ید سکتا ہے نہ 50 لاکھ سے زیادہ کی پراپرٹی۔ جس سے دو بڑے شعبوں آٹو موبائل اور رئیل اسٹیٹ کو قومی معیشت سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے جبکہ صرف 18 لاکھ افرد ٹیکس ادا کرتے ہیں جن میں 13 لاکھ سرکاری ملازم ہیں۔ اس طرح فائلرز کی تعداد صرف 5 لاکھ بنتی ہے، نان فائلرز اس وقت بینک ٹرانزیکشن پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جو جولائی سے 0.9 فیصد ادا کرنا پڑے گا۔ دنیا میں معیشت کے لحاظ سے امریکہ سرفہرست ہے اس کے بعد چین، جاپان اور جرمنی کا نمبر آتا ہے۔ جاپان اور جرمنی کی معیشت میں ترقی آٹو موبائل انڈسٹری کی وجہ سے ہے۔ لیکن ہم اپنے ہاتھوں سے اس صنعت کو تالہ لگا رہے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی دولت کو ظاہر کیوں نہیں کر تے ؟ کاروباری افراد کہتے ہیں کہ حکومتی ادارے ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ انھیں نوٹس بھیجے جاتے ہیں، طلب کیا جاتا ہے، خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ معیشت کا پہیہ نا ن فائلرز کی وجہ سے کچھ نہ کچھ چل رہا تھا۔ اب سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اسکا واحد حل یہ ہے کہ یکدم کوئی اقدام کرنے کے بجائے ٹیکس اصلاحات کر کے مرحلہ وار ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھائی جائے۔ ادارے افراتفری کا ماحول پیدا نہ کر یں بلکہ حکومت کو حقائق سے آگاہ کریں۔