اسلام آباد: (دنیا نیوز) مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2020ء کے لیے زراعت میں 2.67، صنعت میں منفی 2.64 فیصد اور خدمات کے شعبے میں منفی 0.59 نمو کی بنیاد پر ملکی آمدن کی شرح نمو کا تخمینہ 0.38 فیصد ہے۔ کورونا کی وبا سے ملک کو 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کررہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور موخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم نے اپنے بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹا اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پہلے سال اور خصوصی طور پر اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر کہ 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں، وہ واپس کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کوواپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے فنانس سیکریٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے ڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔ پوراسال کسی بھی ادارے کو کسی بھی حکومتی وزات کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے اور اس کا اثر آپ نے دیکھا کہ کورونا وائرس آنے سے پہلے ہم پرائمری سرپلس کے ایریا میں چلے گئے تھے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں، ان کے لیے انفرااسٹرکچر یعینی سڑکیں، پُل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں ور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں۔ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا، ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائین تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریبا 27فیصد جا رہی تھی۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکسز میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے، اخراجات میں زبردست کمی اور نظم و ضبط آیا ہے، باہر کے قرضوں کو خوش اسلوبی سے واپس کیا گیا اور اپنے تعلقات تجارت کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ برقرار رکھے اوربرآمد کنندگان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی برآمدات بڑھائیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا ج وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو جکمزور طبقے سے ہیں، جنہیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پوگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پوگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کوروناوائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور سا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کورونا کی وبا سے ملک کو 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برآمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی او ایسا ہوا بھی ہے۔ ہم نے جو ملک میں اقصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا، اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کوروناکے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہےکیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی تین فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پھر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقدرقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبردآزما ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کوبچانا ہے اور اس کے لیے لیے دوطرح کے پیکج دیے گئے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب سٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔
مشیر خزانہ نے کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کروبار زندگی بھی چلے ور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اب تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیے جا چکے ہیں جو شاید دنیا کی تاریخ میں ایک نمایاں چیز ہے کہ اتنےاچھے انداز میں دیے گئے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ عام پاکستانیوں کوبلا امتیاز یہ پیسے دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے گئے، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ گندم خریدی جائے تاکہ جب کسانوں کے ہاتھ میں یہ پیسے آئیں گے تو وہ اپنے ضروریات زندگی بھی پورے کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ٹریکٹر چاہیے، انہیں گھر بنانا ہے،مویشی خریدنے ہیں یا سرمایہکاری کرنی ہے تو وہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمیں لائے تاکہ ویاں کھاد کی قیمتیں کم ہوں ور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کومراعات دی جا سکیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں۔