اسلام آباد: (دنیا نیوز) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام کا کہنا ہے کہ ادارے کو ریفنڈز کیلئے 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں، اب تک 313 ارب روپے کے انکم ٹیکس ریفنڈز ایف بی آر نے ادا کرنے ہیں۔
فیض اللّٰہ کموکا کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں بتایا گیا کہ 187 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے بقایا جات ہیں جبکہ رواں مالی سال اب تک 99 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کئے گئے ہیں، ایف بی آر نے اب تک 2205 ارب روپے کے محصولات جمع کئے ہیں۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ایف بی آر نے پہلے چھ ماہ میں ہدف سے زائد ٹیکس اکھٹا کیا، رواں مالی سال اب تک ایڈوانس ٹیکس وصول نہیں کیا گیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایکسپورٹرز کے ریفنڈز کی مد تمام بقایا جات ادا کردئیے گئے ہیں۔ جولائی سے ستمبر میں انکم ٹیکس ریٹرن کی وجہ سے انکم ٹیکس کلیکشن میں اضافہ ہوا۔
رکن کمیٹی عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ صرف 18 فیصد ایف بی آر نے ریفنڈز جاری کئے ہیں،82 فیصد کو ابھی تک ریفنڈز ادا نہیں کئے گئے، گزشتہ مالی سال سے 5 فیصد ٹیکس گروتھ زیادہ ہونے پر بھی ٹیکس ہدف کا حصول ممکن نہیں، معیشت کے پہیے کو چلانے کیلئے سخت اقدامات سے پرہیز کیا جارہا ہے۔
ایف بی آر حکام نے کہا کہ صنعتوں کو چلانے کیلئے بہتر اقدامات کئے ہیں لیکن محصولات میں اضافہ کیلئے اقدامات بھی کئے، ٹیکس آفسز کو ہدف نہیں دیئے گئے بلکہ ان کو ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، ہم مارکیٹ کو پھلنے پھولنے دے رہے ہیں اور آئندہ 6 ماہ میں اس میں مزید کام کریں گے۔
رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ایف بی آر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلئے اقدامات کرے، ایف بی آر کی صنعتوں کو چلنے دینے والی بات حکومت کی ذمہ داری ہے، آنکھیں بند کرکے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے، اس حکومت نے بڑے پیمانے پر قرضے لئے ہیں ایف بی آر محصولات کی کمی کی وجہ سے مزید قرض لے گی، حکومت کے قرض لینے سے خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔