اسلام آباد: (ویب ڈیسک) حکومت کی معاشی ٹیم نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو پارلیمنٹ میں احتساب کے لیے جواب دہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، سٹیٹ بینک کے گورنر کے احتساب کی ذمہ داری اب پارلیمنٹ کی ہے جبکہ گورنر کی مدت میں اضافہ کر کے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر ، مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین ، سیکرٹری خزانہ کامران افضل اور چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کابینہ میں آج کچھ فیصلے اور قوانین کی منظوریاں دی گئی ہیں، جن میں اسٹیٹ بینک کے حوالے سے قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے متعلق قانون منظور کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد اس کے لیے مینڈیٹ طے کرنا ہے، اسٹیٹ بینک کےگورنر کی مدت 5 سال ہوگی، جب کہ اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ میں احتساب کے لیے جواب دہ کیا جا رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں3 بڑے قوانین کی منظوری دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اداروں کو وزارتوں کی بجائے حکومت کے ماتحت کر رہے ہیں، اداروں کے بورڈز کے چیئرمین اب حکومت مقرر کرے گی، جب کہ اداروں کے سی ای او بورڈز کی تقرری کریں گے، کمپنیوں کو پیپرا رولز سے بھی چھٹکارا دلایا جائے گا، کمپنیوں کی لیڈر شپ پروفیشنل ہوگی اور انھیں بار بار تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرحفیظ شیخ نے کہا ٹیکسوں کی چھوٹ میں کمی لانے کے لیے بھی قانون لایا گیا ہے، اس سے ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوگا، انکم ٹیکس میں خصوصی شعبوں کے لیے چھوٹ ختم کی جا رہی ہیں، تمام شعبوں کے لیے ٹیکس مساوی کر رہے ہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور پاکستان کے تعلق کو بحال کر دیاگیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ نجکاری مشکل کام ہے، اس میں سرمایہ دار کی ضرورت ہوتی ہے، نج کاری کے پروگرام کو مزید بڑھایا گیا ہے، کچھ کمپنیز کی نج کاری ہو جاتی اگر کرونا وبا نہیں آتی۔ سٹیٹ بینک کا مرکزی کام ملک میں منہگائی کم کرنا ہوگا، حکومتی ادارے اور کمپنیوں سے پیپرا کی مداخلت کوختم کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنے ذرائع اور کوششوں سے پیسا بنائے گی،ٹیکس کا نظام بہتر بنانے کے لئے ترامیم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوروناکےباعث پرائیویٹائزیشن میں 6سے9مہینےکابریک آیا،کچھ کمپنیاں ایسی تھیں کہ کورونا وائرس نہ آتا تو پرائیوٹائز ہو چکی ہوتیں۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہدایات دی ہیں کہ یوٹیلیٹی سٹورکارپوریشن پر 5 بنیادی اجناس پر سبسڈی جاری رکھی جائیں ، آج(بدھ) کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں رمضان پیکیج کی منظوری دی جائے گی ۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پہلے کسی کو پتا نہیں تھا کہ پاکستان میں کتنے ادارے کام کر رہے ہیں، ہم نے سروے کرایا تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں 441 ادارے متحرک ہیں، ان اداروں کے ساتھ پرفارمنس ایگری منٹ ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ 56 چیف ایگزیکٹوز مختلف اداروں کے تعینات کر دیےگئے ہیں، درست شخص درست جاب کے لیے ہوگا تو ادارے بنیں گے، میرے ذمے یہ بھی ہے کہ اداروں کو کیسے مضبوط بنایا جائے، ان اداروں کو 2 کلاسز میں علیحدہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کو چلانے کے لیے منصوبہ بنایا جائے گا، اب تک نئے عمل کے تحت ہر اسامی مشتہر کی جاتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 85کمرشل اداروں میں سے 51ادارے منافع بخش ہیں ، 44اداروں کی نجکاری کی جائے گی ابتدائی طور پر 28اداروں کی نجکاری کی جائے گی ۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ حکومت اپنے اخراجات اور آمدنی میں گیپ کو کم کررہی ہے،حکومت نے اسٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا ۔
انہوں نے کہا کہ گھی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہے ،200ارب احساس پروگرام میں کمزور طبقے کو دیئے جارہے ہیں،ایگریکلچر ٹیوب ویل کے بل کا بڑا حصہ حکومت دیتی ہے ۔ عمران خان کو تباہ شدہ معیشت کی وجہ سے آئی ایم ایف جانا پڑا، ماضی کے اثرات سے نمٹ رہے ہیں ، تو ماضی کی بات بھی کرنی پڑے گی ۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کارخانہ 100فیصد صلاحیت کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ پاکستان کے ٹیکس نظام میں سیکٹرز کو چھوٹ دی گئی ہے۔ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے قوانین کی منظوری دی گئی،کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جا رہا ہے، ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے ٹیکس کلیکشن بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام دوبارہ بحال ہو چکا ہے،آئی ایم ایف کے بورڈ سے جلد مذاکرات ہوں گے اور قرض کی اگلی قسط موصول ہو گی۔