اسلام آباد: (دنیا نیوز) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 20 فیصد کر دیا ہے، اس سے قبل 1996ء میں شرح سود 20 فیصد رہی، پی ڈی ایم اتحادی حکومت کے 11 ماہ کے قلیل عرصے کے دوران شرح سود میں 775 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود 22 جون 1996ء میں 20 فیصد مقرر کی گئی تھی، جسے 362 دنوں بعد 18 جون 1997ء کو کم کر کے 19 فیصد کر دیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک 11 ماہ کے قلیل عرصے کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں بتدریج 5 دفعہ اضافہ کرتے ہوئے 775 بیسس پوائنٹس اضافہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ 3 دہائیوں میں ملکی تاریخ میں سب سے کم شرح سود 23 مئی 2016ء کو 5.75 فیصد مقرر کی گئی تھی جسے 20 ماہ 7 دن، 29 جنوری 2018ء تک برقرار رکھا گیا تھا، سابق وزیراعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ کا 15 بار اعلان کیا گیا، جس میں 10 بار پالیسی ریٹ میں اضافہ جبکہ 5 بار پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی۔
پی ڈی ایم جماعتوں کی اتحادی حکومت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے 24 مئی 2022ء کو شرح سود کو 150 بیسس پوائنٹس اضافے کے ساتھ 13.25 فیصد کر دیا گیا جسے 13 جولائی 2022ء میں مزید 125 بیسس پوائنٹس اضافے کے ساتھ 16 فیصد کر دیا گیا۔
28 نومبر 2022ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 17 فیصد کر دیا، 24 جنوری 2023ء کو ایک بار پھر شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 18 فیصد پر مقرر کیا گیا، 38 دنوں بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرتے اسے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 20 فیصد پر مقرر کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 9ویں اقتصادی جائزے کی تکمیل 3 نومبر 2022ء سے تعطل کا شکار ہے جس کے مکمل ہونے پر پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری ہوگی، تاہم اس تمام عرصے کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود میں 500 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔