لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) سال 2023ء کے ابتدائی چار ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 59 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان آٹو مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (پاما) کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2023 میں جنوری تا اپریل کے عرصے میں 20 ہزار 182 گاڑیاں مینوفیکچر ہوئیں جبکہ 19 ہزار 708 گاڑیاں فروخت ہوئیں، گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 77 ہزار 772 گاڑیاں مینوفیکچر جبکہ 76 ہزار 464 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں، اسی طرح 1300 سی سی سے زیادہ انجن والی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں 58 فیصد جبکہ ان کی فروخت میں 59 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح ایک ہزار سی سی انجن گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں 58 فیصد جبکہ ان کی فروخت میں 59 فیصد کمی واقع ہوئی، ایک ہزار سی سی سے کم انجن والی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں 61 فیصد جبکہ ان کی فروخت میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی۔
پاما کے اعدادوشمار کے مطابق ٹرک کی مینوفیکچرنگ اور فروخت میں 59 فیصد کمی واقع ہوئی، بسوں کی مینوفیکچرنگ میں 69 فیصد، جبکہ فروخت میں 67 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح جیپ اور پک اپس کی مینوفیکچرنگ میں 63 فیصد، جبکہ ان کی فروخت میں 60 فیصد کمی دیکھی گئی۔
ٹریکٹروں کی مینوفیکچرنگ میں 56 فیصد، جبکہ ان کی فروخت میں 55 فیصد کمی واقع ہوئی۔ موٹر سائیکلوں کی مینوفیکچرنگ اور فروخت میں 61 فیصد کمی واقع ہوئی۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں کمی کے باعث درآمدی بل میں کمی لانے کیلئے پابندیاں لگائی گئی، جس سے پاکستان کی کارساز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو براہِ راست نقصان ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی کارساز مینوفیکچرنگ سیکٹر درآمد شدہ آٹو پارٹس اور خام پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
اسی طرح سال 2023 کے آغاز میں فی ڈالر ریٹ 227 روپے تھا، جو اب 286 روپے پر پہنچ چکا ہے۔ یوں گزشتہ چار ماہ کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 59 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 4 ارب 9 کروڑ 7 لاکھ ڈالر ذخائر موجود ہیں، جو کہ بمشکل ایک ماہ کے درآمدی بل کے برابر ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے درآمدی پالیسی کے متعلق سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
خام مال کی قلت اور گاڑیوں کی گرتی ہوئی فروخت کے باعث کارساز مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے رواں مالی سال 2023 کے دوران متعدد بار اپنے پلانٹس بند کیے، اسی طرح حکومت کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور سیلز میں ہونے والے اضافے سے پاکستان درآمد ہونے والی گاڑیوں میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق رواں سال جنوری تا اپریل میں ملک میں ایک کروڑ 85 لاکھ 54 ہزار ڈالر کی سی بی یو ( مکمل تیار شدہ یونٹس) گاڑیاں ، جبکہ 19 کروڑ 95 ہزار ڈالر کی سی کے ڈی (اسمبل ہونے والی گاڑی)گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ سال 2022 کے اسی عرصے میں ملک میں 9 کروڑ 5 لاکھ 25 ہزار ڈالر کی سی بی یو گاڑیاں ، جبکہ 58 کروڑ 13 لاکھ 86 ہزار ڈالر کی سی کے ڈی گاڑیاں درآمد ہوئیں۔
یوں سال 2023 کے دوران سی بی یو گاڑیوں کے درآمدی بل میں 80 فیصد، جبکہ ایس کے ڈی گاڑیوں کے درآمدی بل میں 67 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2022 میں 1 ارب 55 کروڑ 4 لاکھ 81 ہزار ڈالر کی سی بی یو اور سی کے ڈی گاڑیوں درآمد ہوئیں۔
اس سال جنوری تا مئی میں مہنگائی کی اوسط شرح 33.78 فیصد رہی، بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قابو میں لانے کیلئے حکومت نے رواں سال شرح سود میں قسط وار 4 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 21 فیصد کر دیا ہے۔
شرح سود میں ریکاڈ اضافے کے باعث عام صارف اب گاڑیوں کی بینک لیزنگ سے اجتناب کر رہا ہے، سال 2023 میں صارفین کی جانب سے ایک ہزار 283 ارب 86 کروڑ 20 لاکھ روپے کے کار فنانسنگ کی گئی، جو کہ گزشتہ سال اس عرصے میں ایک ہزار 439 ارب 27 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی، یوں جنوری تا اپریل کے دوران کار فنانسنگ میں 155 ارب 41 کروڑ 20 لاکھ روپے کی کمی دیکھی گئی۔