لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) رواں مالی سال 24-2023ء میں نیپرا کی جانب سے ملک میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فی یونٹ 22.95 روپے پر بجلی کی ترسیل ممکن بنائی جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
نیبرا کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک میں ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بجلی کی ترسیل پر نیپرا کو 2 ہزار 866 ارب 15 کروڑ 90 لاکھ روپے ادا کریں گی، جولائی 2023 تا جون 2024 کے عرصے میں نیپرا کی جانب سے ایک لاکھ 24 ہزار 860 گیگاواٹ فی گھنٹہ بجلی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فراہم کی جائے گی، جس میں انرجی پرچیز پرائس کی مد میں 840 ارب 46 کروڑ 20 لاکھ روپے جبکہ کپیسیٹی چارجز کی مد میں 2 ہزار 25 ارب 67 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔
نیپرا کی جانب سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فراہم کی جانے والی بجلی پر دو اقسام کے چارجز لاگو ہوتے ہیں، جن میں انرجی پرچیز پرائس اور کپیسٹی چارجز شامل ہیں، نیپرا کی دستاویزات کے مطابق اس وقت نیشنل گرڈ میں شامل ہونے والی بجلی پر نیپرا کو کپیسٹی چارجز کی مد میں 71 فیصد جبکہ انجرجی چارجز کی مد میں 29 فیصد لاگت آ رہی ہے۔
رواں مالی سال کے دوران انرجی پرچیز پرائس پر نیپرا کو جولائی میں 276 ارب روپے، اگست میں 271 ارب روپے، ستمبر میں 269 ارب روپے، اکتوبر میں 247 ارب روپے، نومبر میں 203 ارب روپے، دسمبر میں 206 ارب روپے، جنوری میں 214 ارب روپے، فروری میں 189 ارب روپے، مارچ میں 213 ارب روپے، اپریل میں 236 ارب روپے، مئی میں 256 ارب روپے جبکہ جون میں 286 ارب روپے لاگت آئے گی۔
رواں مالی سال کے دوران مختلف ذرائع سے بجلی کی پیداواری لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے نیپرا کو اوسط بجلی کی قیمت فی یونٹ 20.60 روپے پڑنے کا امکان تھا جبکہ نیپرا کی جانب سے ملک میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو فی یونٹ 22.95 روپے پر بجلی کی ترسیل ممکن بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ 22.95 روپے فی یونٹ میں سے 16.22 روپے فی یونٹ نیپرا کو کپیسٹی چارجز کی مد میں سے جبکہ 6.73 روپے انرجی پرچیز پرائس کی مد میں چارج ہوتے ہیں۔
پاکستان کے پاور سیکٹر میں بجلی کی پیداواری لاگت عموماً ڈالر کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، یوں، ایکسچینج ریٹ میں رونما ہونے والی تبدیلیاں براہ راست انرجی پرچیز پرائس اور کپیسٹی چارجز پر اثر انداز ہوتی ہیں، امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے باعث ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جو ممکنہ طور پر صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے، اس کے علاوہ ملک کی اقتصادی حالت، افراطِ زر کی شرح، زرمبادلہ کے ذخائر اور حکومتی پالیسیاں بھی بجلی کی پیداواری قیمت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان سب کو مد نظر رکھتے ہوئے نیپرا اتھارٹی کی جانب سے رواں مالی سال 24-2023 کے لیے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اوسط قیمت 286 روپے مقرر کی گئی تھی، آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ملک میں اس وقت مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کا نظام موجود ہے، جس کے باعث مستقبل میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے۔
نیپرا کی جانب سے جولائی کے مہینے میں بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کا تخمینہ 6.89 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا تھا، تاہم جولائی میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 11 روپے اضافے کے باعث فی یونٹ بجلی کی لاگت 8.96 روپے آئی، جس کے باعث سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے نیپرا سے ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 2 روپے 7 پیسے اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی جس سے صارفین پر اضافی 35 ارب روپے کا بوجھ پڑنا ہے۔
اسی طرح، نیپرا کی جانب سے رواں ماہ اگست میں بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کا تخمینہ 6.65 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے، تاہم اگست کے مہینے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے، اس اضافے سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو نیپرا کی جانب سے آئندہ آنے والے عرصے میں ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین سے اکٹھا کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رواں مالی سال 24-2023 کے دوران نیپرا کی جانب سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کا تخمینہ اوسطاً 6.46 روپے فی یونٹ لگایا گیا تھا، جبکہ اس مالی سال کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اوسط قیمت 286 روپے مقرر کی گئی تھی، تاہم رواں مالی سال کے دوسرے ہی دن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 286 روپے سے تجاویز کر گئی تھی۔
ماہرین کے مطابق رواں مالی سال کے دوران روپے کے مقابلے میں فی ڈالر کی قیمت 350 روپے تک جانے کے خدشات موجود ہیں، ایسا ہونے سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی مزید اضافہ ہو گا، جسے پورا کرنے کیلئے نیپرا صارفین پر ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافی بوجھ ڈالے گی۔