لاہور: (ویب ڈیسک ) سرپرست اعلیٰ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) ایس ایم تنویر نے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی معیشت میں نمو ، برآمدات ، سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافے کیلئے بجلی کے نرخ 9 سینٹ فی کلو واٹ اور 15 فیصد تک کم کیے جائیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( ایف پی سی سی آئی) کے علاقائی دفتر کے دورے کے موقع پر وفاقی وزیر سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ان دو اقدامات سے صنعتی سیکٹر میں مثبت انداز میں بہتری آئے گی ۔
اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگون، سابق نگراں وفاقی وزیر تجارت، صنعت، سرمایہ کاری و داخلہ ڈاکٹر گوہر اعجاز اور نیشنل اکنامک تھنک ٹینک کے چیئرمین ذکی اعجاز، ریجنل چیئرمین اور نائب صدر ایف پی سی سی آئی بھی موجود تھے۔
ایس ایم تنویر کاکہنا تھا کہ کاروباری برادری ٹیکس صرف اسی صورت میں پیدا کر سکتی ہے جب اسے کمانے کی اجازت ہو، کاروبار کے لیے سازگار ماحول صنعت و تجارت کو نہ صرف فروغ دیتا ہے بلکہ اس سے ریونیو میں بھی اضافہ ہوتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی پہلے ہی کم ہو کر 12 فیصد پرآچکی ہے ایسی صورت میں 20.5 فیصد شرح سود کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سربراہ یونائیٹڈ بزنس گروپ نے کہا کہ صنعت کو 9 سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی شرح سے بجلی فراہم کرنے سے برآمدات میں چھ بلین ڈالر کا اضافہ ہوگا جبکہ گرڈ پر 300 میگاواٹ سے زائد کی اضافی طلب سے 500 ارب روپے کا ریونیو اور 240 بلین کے قرض میں کمی ہوگی ۔
انہوں نے وزیر خزانہ کو تجویز دی کہ وہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے پی ایس ڈی پی سے 240 ارب روپے نکال دیں کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی 240 بلین روپے کراس سبسڈیز اور 150 بلین روپے سے زائد لاگت کی ادائیگی کر رہی ہے۔
انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ کو بتایا کہ تاجر برادری صرف اس مؤقف پر عالمی مارکیٹ سے آرڈر حاصل نہیں کر سکتی کہ حکومت کراس سبسڈیز کے تحت اس سے زیادہ وصول کر رہی ہے۔
انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی خریدار ویتنام، بنگلہ دیش اور دیگر سے سستی توانائی حاصل کررہا ہے وہ ان کے مقابلے میں ہمیں کیوں ترجیح دیں گے۔
ایس ایم تنویر نے کہا کہ پاکستان میں برآمدی صنعت ختم ہو رہی ہے اور وہ تیزی سے مارکیٹ شیئر کھو رہا ہے کیونکہ مسابقتی ممالک میں ان کے مقابلے میں دو گنا زیادہ بجلی فراہم کی جا رہی ہے ، نتیجتاً ملک میں ہر ماہ 600 ملین ڈالر کی برآمدی صلاحیت غیر استعمال شدہ ہے، ایسی صورت میں برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہی واحد حل ہے جو کہ سالانہ 24 بلین ڈالر مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات، ادائیگیوں اور توازن کے مسائل اور روزگار کے مواقع کو پورا کرسکتا ہے۔
توانائی کی موجودہ قیمتوں کے پیش نظر انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 60 سے 70 فیصد صنعتیں بند ہو جائیں گی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صنعتوں کیلئے گھریلو گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ توانائی کے غیر مسابقتی ٹیرف برآمدی ترقی اور برآمدی شعبے کے اندر سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔
ایس ایم تنویر نے مزید کہا کہ وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد ملک بھر کے 228 چیمبرز اور ٹریڈ یونینز خوف کا شکار ہیں ۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گروپ نے FPCCI سنبھالتے ہی 2030 تک 100 بلین ڈالر کی برآمدات کا تصور کیا تھا، ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاہم موجودہ بجٹ نے ہمارے اس عزم و امید کو کافی کم کردیا ہے ۔