لاہور: (دنیا نیوز) بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سرمایہ کار دیگر ایشیائی ممالک کی جانب متوجہ ہونے لگے جس کے باعث سرمایہ کاروں کو پاکستان کے پاس اپنی طرف راغب کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔
سابق بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد پیدا ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے فیکٹریاں کئی دن تک بند رہیں جن کے باعث اعلیٰ بین الاقوامی فیشن برانڈز نے بنگلا دیش سے آرڈرز ہٹانا شروع کر دیئے۔
حکومت کے وفاداروں کی ملکیت والی متعدد فیکٹریوں کو انتقامی حملوں میں نذر آتش کر دیا گیا جس کے باعث یورپ اور شمالی امریکہ میں موسم سرما کے خوردہ موسم کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی فراہمی میں تاخیر ہوئی۔
دوسری جانب بنگلا دیشی برآمد کنندگان نے کہا ہے کہ کچھ بڑے برانڈز نے آنے والے سیزن کے آرڈرز کو جنوب مشرقی ایشیائی سپلائرز کو منتقل کر دیا ہے جس سے موجودہ عالمی سپلائی چین میں خلل پڑا ہے۔
واضح رہے کہ بنگلا دیش کی ریڈی میڈ گارمنٹس کی ایکسپورٹ جولائی 2023 میں 42.63 ارب ڈالرز تھیں جو کہ مئی 2024 میں بڑھ کر 43.85 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں، تقریباًایک سال کے دوران بنگلا دیش کی ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں 2.86 فیصد کا اضافہ ہوا۔
بنگلا دیش کے مقابلے میں گزشتہ سال پاکستان کی ایکسپورٹ 16.50 ارب ڈالر رہیں جس میں صفر اعشاریہ 93 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد پاکستان کی ایکسپورٹ 16.55 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بین الاقوامی کمپنیوں کو سہولت دیتے ہوئے اپنی طرف راغب کرے، بنگلا دیش کی موجودہ صورتحال کے باعث پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل برآمدات بڑھانے کا موقع ہے۔
بنگلا دیش کے 5 ارب ڈالر کے ٹیکسٹائل آرڈرز پاکستان کو مل سکتے ہیں، اس موقع کا فوری فائدہ نہ اٹھایا تو یہ آرڈرز بھارت، کمبوڈیا اور ویتنام کو مل جائیں گے۔
اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے اگر بجلی ٹیرف 16 سے کم کر کے 9 سینٹ کر دیا جائے اور ٹیکس اصلاحات بھی کر دی جائیں تو ٹیکسٹائل برآمدات بڑھنے سے 50 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔