کمزور انرجی سیکٹر، ناقص ادارہ جاتی اصلاحات، محدود ٹیکس نیٹ معیشت کیلئے بڑے چیلنجز

Published On 08 November,2025 10:34 am

اسلام آباد (مدثر علی رانا) آئی ایم ایف نے پاکستان میں کمزور انرجی سیکٹر، ناقص ادارہ جاتی اصلاحات، کمزور گورننس، کاروبار کے لیے غیر سازگار ماحول، کم برآمدات اور محدود ٹیکس نیٹ کو معیشت کے بڑے چیلنجز قرار دے دیا۔

ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام سیشن سے خطاب میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، سیلاب اور فضائی آلودگی کے باعث پاکستان کو 2050 تک جی ڈی پی کا 20 فیصد نقصان ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب نے پاکستان کو 30 ارب ڈالر جبکہ حالیہ سیلاب نے 2.9 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، پاکستان میں صحت، خوراک، تعلیم، صاف پانی اور ماحول سے متعلق مسائل سنگین صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کنٹری فریم ورک کے تحت پاکستان کو 20 ارب ڈالر دے گا تاہم اس کیلئے پاکستان کو موسمیاتی موافقت اور اصلاحات پر عملدرآمد کرنا ہوگا، آبادی کی تیز رفتار شرح اور کم غذائیت کے باعث بچوں اور نوجوانوں کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو مستقبل میں معیشت کیلئے بوجھ بن سکتے ہیں۔

نمائندہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور سیلابوں کے باعث مائیکرو اکنامک چیلنجز کا سامنا ہے، آر ایس ایف پروگرام کی پہلی قسط دسمبر تک جاری ہو جائے گی، پاکستان میں ٹیکس بلحاظ جی ڈی پی شرح بہت کم ہے، جسے کم از کم 15 فیصد تک لانا ناگزیر ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق انرجی سیکٹر میں اسٹرکچرل اصلاحات کی فوری ضرورت ہے، ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری میں پیشرفت مثبت ہے، مہنگائی مڈٹرم میں 7 فیصد تک آنے کی توقع ہے، معیشت 2027 تک استحکام اور گروتھ کی جانب بڑھ سکتی ہے۔

یو این ڈی پی کے نمائندے نے تجویز دی کہ پاکستان کو سیلاب اور قدرتی آفات سے پہلے ایڈوانس مینجمنٹ اور 8 سے 10 ارب ڈالر سالانہ کی موسمیاتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کو موجودہ معاشی و ماحولیاتی بحران سے نکلنے کیلئے پالیسی تسلسل، مضبوط گورننس، ٹیکس نیٹ کی توسیع، گرین فنانسنگ اور برآمدات کے فروغ پر فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔