پاکستان سپر لیگ میں جہاں چھ ٹیمیں اپنا رنگ جما رہی ہیں تو دوسری طرف بھارت کی آئی پی ایل جس کا آغاز 2008ء میں ہوا، 8 ٹیمیں گزشتہ سیزن میں شریک تھیں جن میں چنائی سپر کنگ، دہلی ڈیرڈیولز، کولکتہ نائٹ رائیڈرز، پنجاب کنگز الیون، ممبئی انڈینز، سن رائز حیدر آباد، رائل چیلنجرز بنگلور اور راجھستان رائلز شامل ہیں۔
بی سی سی آئی کے زیرِ اہتمام ہونیوالے اس ایونٹ میں دنیا بھر کے ٹیموں کے بڑے نام حصہ لیتے ہیں جن میں آئی پی ایل اور راجھستان رائلز کے سب سے مہنگے کھلاڑی انگلینڈ کے بین سٹوک، کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے کرس لِن، مچل سٹارک اور دہلی کے گلین میکسویل شامل ہیں۔ ان کے علاوہ شین واٹسن، اے بی ڈویلئر، ڈیوڈ وارنر، سمتھ بھی آئی پی ایل کا ہی حصہ ہیں۔
اس سال آئی پی ایل کی ڈرافٹنگ میں فرنچائزرز نے 169 کھلاڑیوں کو منتخب کیا جن میں 56 غیر ملکی کھلاڑیوں کی فہرست بھی تھی۔ آئی پی ایل کا آئیڈیا للت مودی کا تھا جنہوں نے اسے انڈین بورڈ کو 2007ء میں پیش کیا۔ اس کا انعقاد ہر سال اپریل اور مئی کے مہینوں میں ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئی پی ایل کو آئی سی سی نے اپنے ایف ٹی پی میں بھی شامل کیا ہے۔ اس ایونٹ کے انعقاد سے بھارتی اکانومی کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 2015ء میں بی سی سی آئی نے یہ اعلان کیا کہ آئی پی ایل نے بھارتی جی ڈی پی میں 182 ملین امریکی ڈالر کا حصہ ڈالا اور ہر سال یہ حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ایونٹ کا سب سے زیادہ مرتبہ فاتح ممبئی انڈینز رہی ہے جس نے اب تک تین ٹائٹل اپنے نام کئے ہیں۔
دوسری طرف پی ایس ایل کو شروع کرنے کا آئیڈیا نجم سیٹھی کا تھا لیکن اصل مسئلہ اس کا انعقاد تھا کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالات کی وجہ سے کوئی غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لئے اسے پاکستان سے باہر یو اے ای میں کرانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے دو سیزن میں جس طرح عوام اور فرنچائزرز کی طرف سے زبردست رسپانس ملا اس نے چھٹی فرنچائز (ملتان سلطان) کو بھی میدان میں آنے کا موقع دیا۔ پہلے سیزن کی فاتح اسلام آباد رہی جبکہ دوسرے پی ایس ایل کی چیمپئن پشاور زلمی ٹھہری۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے نام سے الگ سے کمپنی بنائی، پھر اس ایونٹ کو آہستہ آہستہ پاکستان میں لانے کا فیصلہ کیا گیا جس کا آغاز دوسرے سیزن کے فائنل کا انعقاد قذافی سٹیڈیم لاہور سے کیا گیا جبکہ تیسرے سیزن کے دو سیمی فائنل اور فائنل پاکستان میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونے پر پورا پی ایس ایل پاکستان کے مختلف شہروں میں ہو گا اور اس طرح پاکستان کے جی ڈی پی میں بھی اپنا حصہ ڈالے گا۔
آئی پی ایل اور پی ایس ایل میں یہی بڑا فرق ہے کہ آئی پی ایل اپنے ملک میں ہو رہی ہے لیکن پی ایس ایل دوسرے ملک میں ہونے کے باوجود پذیرائی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے اور آئی پی ایل کا مقابلہ کر رہی ہے۔
اگر پی ایس ایل کے میچز پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوں تو ایسے ہی سٹیڈیمز بھرے اور پُرجوش نظر آئیں گے جیسے کہ آئی پی ایل میں نظر آتے ہیں۔ اگر پی ایس ایل کو مزید کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو اسے پاکستان میں کرانا ضروری ہو گیا ہے لیکن اس کے لئے سیکیورٹی کے حالات کو مزید بہتر کرنا پڑے گا۔
افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں نے حالات کو کافی بہتر کیا ہے جس سے جب دنیا کا اعتماد بحال ہو گا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پی ایس ایل دنیا کا ایک عظیم ایونٹ بن جائے گا اور بڑے سے بڑا کھلاڑی اس میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز کی بات سمجھے گا۔