لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو حیدر علی کی شکل میں ایک اور بابر اعظم مل گیا، جو ملک کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کے خلاف پاکستان کے بلے بازوں کو اپنی اننگز بنانے کا فن سیکھنا پڑے گا۔ صرف نصف سنچریاں سکور کرنا کافی نہیں ہوگا یہاں تک کہ اگر تین بلے باز نصف سنچری بناتے ہیں تو یہ کام نہیں کرے گا کیونکہ اس سے جیت یقینی نہیں ہوگی جو بھی بلے باز پچاس رنز بنائے گا تو انہیں اسے سو میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ یہ بہت اہم ہے.
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے پاس مضبوط باؤلنگ لائن اپ ہے جس نے دوسرے ٹیسٹ میں شارٹ پچ گیندوں کو استعمال کر کے ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ لائن کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کے باؤلرز قومی بلے بازوں کو آﺅٹ کرنے کے لئے باﺅنس دینے کے وہی حربے استعمال کریں گے۔ پاکستان کو ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کی تباہی سے سبق لینا چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ویسٹ انڈیز کی طرح پاکستان کے بلے بازوں پر باﺅنسروں گیندوں سے حملہ ہوگا لہذا انہیں ان گیندوں کے خلاف دفاعی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
رمیز راجہ کے مطابق پاکستان کے بلے بازوں کے لئے اصل چیلنج اس وقت ہوگا جب وہ نئی گیند سے انگلش باولز کا مقابلہ کریں گے۔ میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ پاکستان کو تین اوپنرز کے ساتھ کھیلنا چاہئے کیونکہ انگلینڈ کے خلاف جنگ نئی گیند سے ہوگی۔ امام الحق جو کہ تجربہ رکھتے ہیں کو ون ڈاﺅن پوزیشن پر آنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا اگر پاکستانی بلے باز فاسٹ باﺅلنگ پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ میچ جیت سکتے ہیں۔ ا
انہوں نے کہا کہ عابد علی فارم میں ہیں کیونکہ وہ رنز بنا رہے تھے لیکن اس بار وہ مشکل حالات میں بیٹنگ کریں گے۔ انگلینڈ کے باﺅلر شارٹ بالز کی کوشش کریں عابد علی کو ان بالز کو چھوڑنا چاہیے، وہ شارٹ بالز کو اچھی طرح سے نہیں کھیلتےاس لئے انہیں باﺅنسرز کا خیال کرنا چاہیے۔ انگلینڈ کے باﺅلر مکمل ہوم ورک کے ساتھ آئیں گے اور ان کی فارم کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستانی مشہور کمینٹیٹر کا کہنا تھا کہ پریکٹس میچوں کے دوران پاکستان کے لئے موقع تھا کہ وہ ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ کے باؤلرز کے ذریعے ٹیسٹ کے طریقوں پر کام کرتے۔ پاکستان کو یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے خود کو تیار کرنا چاہئے کہ دوسرے ٹیسٹ میں انگلش پیسرز کے ذریعہ ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو کس طرح آوٹ کیا گیا. پریکٹس میچوں کے دوران یہ بہتر ہوتا اگر پاکستان کے فاسٹ باولرز پورے سیشن میں صرف شارٹ پچز پر ہی گیند کرتے۔
رمیز راجہ نے پاکستانی بلے بازوں کو پریکٹس میچوں میں زیادہ رنز بناتے ہوئے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم پریکٹس میچوں میں سنچریاں دیکھ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک مثبت علامت ہے کہ حیدر علی نے پچاس رن بنائے ہیں۔ وہ ایک نوجوان کھلاڑی ہے۔ حیدر علی بھی بابر اعظم کی طرح باصلاحیت ہیں۔ اس کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کیونکہ ہم نے حیدر علی کی شکل میں ایک اور بابر اعظم کو پایا ہے تو یہ پاکستان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انہیں بھی ٹیم کے ساتھ لے جانا چاہئے جس طرح سابق کپتان عمران خان نے انضمام الحق کو ساتھ لیا اور انہیں کس طرح ہیرو بنا دیا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 1992ءکے ورلڈ کپ کے دوران کپتان عمران خان انضمام کو ٹیم میٹنگز میں کہتے تھے کہ وہ لیجنڈ ہے اور وہ اپنے آپ کو جاوید میانداد سے بھی بڑا اسٹار ثابت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک عظیم سٹار بن کر ثابت کیا، میں امید رکھتا ہوں کہ جب حیدر علی انگلینڈ کے دورے سے واپس آئیں گے تو وہ سپر سٹار بنیں گے کیونکہ ان میں بہت زیاد ٹیلنٹ موجود ہیں۔