وکٹ توڑنے والے فاسٹ باؤلرز

Published On 28 March,2021 08:56 pm

لاہور: (دنیا میگزین) لیجئے قارئین! آج ہم آپ کو کرکٹ کے ایک انتہائی دلچسپ موضوع کے بارے میں بتاتے ہیں اور یقین کامل ہے کہ آپ خوب محظوظ ہوں گے۔ کرکٹ کے کھیل میں کیسے کیسے واقعات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں‘ یہ بحث بڑی طویل ہے۔ یہ کھیل ہی ایسا ہے اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ برق رفتار بائولرز کے بغیر کسی بھی کرکٹ ٹیم کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جب سے کرکٹ کا کھیل وجود میں آیا ہے فاسٹ بائولرز نے اسے نئی رفعتوں سے نوازا ہے۔ اس کھیل کو رعنائیاں بخشی ہیں اور اسے کئی رنگ دئیے ہیں۔ فاسٹ بائولر سوئنگ بھی کرتا ہے‘ بائونسر بھی کراتا ہے‘ خطرناک بیمر بھی پھینکتا ہے‘ فل ٹاس بھی اس کا ایک ہتھیار ہے ‘ اوورپچ بال بھی کراتا ہے۔ یارکر دراصل ایک آرٹ ہے جسے فاسٹ بائولر اپنا مہلک ہتھیار بنا کر استعمال کرتا ہے اور بھی سوئنگنگ یارکر تو بہت خطرناک ہتھیار ہوتا ہے جسے کھیلنا کسی بھی بلے باز کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسی ہی گیندوں کو (Unplayable) کہا جاتا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے بے شمار فاسٹ بائولرز نے بلے بازوں کی وکٹیں اڑائیں ہیں یعنی انہیں کلین بولڈ کیا ہے لیکن کچھ بائولرز ایسے ہیں جنہوں نے اپنی انتہائی تیز اور سوئنگ بائولنگ سے بلے بازوں کی وکٹیں توڑی ہیں۔ ان میں وہ وکٹیں زیادہ ٹوٹیں جو ان سوئنگ یارکر کا نشانہ بنیں۔ ہم ذیل میں ان بائولرز کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام ہیبت ناک بائولرز میں ویسٹ انڈیز کا کوئی بائولر شامل نہیں۔ وہ ویسٹ انڈیز جس نے ویسلے ہال‘ چارلس گرفتھ‘ اینڈی رابرٹس‘ مائیکل ہولڈنگ‘ میلکم مارشل‘ کرٹلی امبروز‘ کوٹنی واش‘ کولن کرافٹ‘ سلویسٹر کلارک اور جوئیل گارنر جیسے بائولرز پیدا کیے۔ ان دہشت ناک بائولرز نے وکٹوں کے ڈھیر لگا دئیے لیکن کوئی بائولر دنیا کے کسی بھی بلے باز کی وکٹ نہ توڑ سکا۔ اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے۔

وقار یونس

وقار یونس کو (Toe Crusher) کہا جاتا تھا۔ انہوں نے 1989 میں عالمی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو بین الاقوامی کرکٹ میں عمران خان لائے تھے۔ 16نومبر 1971کو وہاڑی میں پیدا ہونے والے وقار یونس کو وسیم اکرم کی طرح ’’سلطان آف سوئنگ‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کیلئے 1989سے لے کر 2003تک کرکٹ کھیلی۔ 1987-88 میں انہوں نے کئی فسٹ کلاس میچز کھیلے لیکن وہ زخمی ہو گئے اور انہیں اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے محروم ہونا پڑا۔ اس حادثے کے بعد انہوں نے کرکٹ دوبارہ شروع کر دی۔ وقار کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان تھے جنہوں نے انہیں دریافت کیا۔ 1989 میں انہوں نے اپنا ٹیسٹ کھیلا اور یہ میچ بھارت کے خلاف تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ سچن ٹنڈولکر کا بھی یہ پہلا میچ تھا۔ وقار یونس نے اس میچ میں 4وکٹیں حاصل کیں جن میں سچن ٹنڈولکر اور کیپل دیو کی وکٹیں بھی شامل تھیں۔ا نہوں نے فوری طور پر اپنی شناخت بنا لی اور پھر انہیں ’’بوریوالا ایکسپریس‘‘ کہا جانے لگا۔

انہوں نے 87ٹیسٹ میچز میں 23.56 رنز کی اوسط سے 373وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ 262ایک روزہ میچز میں انہوں نے 23.84رنز کی اوسط سے 416وکٹیں حاصل کیں۔ کیا شاندار ریکارڈ ہے۔ انہوں نے کوئی ٹی 20میچ نہیں کھیلا۔ انہوں نے پانچ بار ایک ٹیسٹ میچ میں 10وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ 22مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ ٹیسٹ میں ان کی بہترین بائولنگ سات وکٹوں کے عوض 76رنز جبکہ ایک روزہ میچز میں 36 رنز کے عوض سات وکٹیں ہیں۔ وقار یونس کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ریورس سوئنگ بھی اسی رفتار سے کراتے تھے جتنی رفتار سے وہ نئی گیند بلے باز کو کراتے تھے۔ یاد رکھیے ریورس سوئنگ صرف اس وقت کرائی جاتی ہے جب گیند پرانی ہو جائے اور پھر بائولر اس کے ایک حصے کو چمکاتا ہے اور دوسرے کو خشک رکھتا ہے۔ وقار یونس کے ان سوئنگنگ یارکر کو کھیلنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا تھا۔ جوانی میں ان کی رفتار بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اس لیے بڑے بڑے بلے باز ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ 1992کے ورلڈکپ سے پہلے وہ زخمی ہو گئے وگرنہ وہ اپنی تیز رفتار بائولنگ کے وہ کمالات دکھاتے کہ لوگ حیران رہ جاتے۔ انہوں نے دو بار بلے بازوں کی وکٹ توڑی۔ 2000میں انہوں نے نیوزی لینڈ کے بلے باز سٹائرس کی وکٹ توڑی۔ یہ میچ سنگاپور میں کھیلا گیا تھا۔ اسی سال انہوں نے آسٹریلیا کے ممتاز بلے باز آنجہانی ڈین جونز کی وکٹ دو ٹکڑے کر دی… تاریخ میں ان کا نام لکھا جا چکا ہے۔

ڈینی موریسن

نیوزی لینڈ کے ڈینی موریسن نے 1989میں پاکستان کے سابق اوپنر مدثر نذر کی وکٹ توڑی۔ یہ میچ نیوزی لینڈ میں ہی کھیلا گیا تھا۔ آج کل موریسن کرکٹ تبصرہ نگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ موریسن ایک عمدہ بائولر تھے۔ وہ ایک میڈیم پیسر تھے اور وکٹ توڑنا ان کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے 48ٹیسٹ میچوں میں 34.7 رنز کی اوسط سے 160وکٹیں اڑائیں جبکہ 96ایک روزہ میچز میں انہوں نے 27.5رنز کی اوسط سے 96کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈینی موریسن کی اوسط ایک روزہ میچوں میں زیادہ اچھی ہے۔وہ بہت اچھے یارکر کراتے تھے۔ انہوں نے 1994میں بھارت کے خلاف ایک روزہ میچ میں ہیٹ ٹرک بھی کی۔ 1995میں کرائسٹ چرچ میں انہوں نے پاکستان کے خلاف 46رنز کے عوض پانچ وکٹیں اپنے نام کیں۔

نووان کلاسیکرا

ان کا تعلق سری لنکا سے ہے۔ یہ بہت اچھے فاسٹ بائولر تھے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک میچ میں پاکستانی کھلاڑی اظہر علی کو اپنی ایک نہایت تیز گیند پر نہ صرف کلین بولڈ کیا بلکہ ان کی وکٹ بھی توڑ دی اور اس طرح اپنا نام بھی تاریخ کے صفحات میں لکھوا لیا۔ نووان کلاسیکرا کے بارے میں ہم اپنے قارئین کو بتاتے ہیں۔ 38 سالہ نووان کلاسیکرا نے 2003 سے 2017 تک کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے 21ٹیسٹ اور 184ایک روزہ میچز کھیلے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 58ٹی 20میچز میں بھی حصہ لیا۔ ٹیسٹ میچز میں انہوں نے 48وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک روزہ میچز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 199تھی۔ ٹی 20میچز میں وہ 66وکٹیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹیسٹ میں ان کی بائولنگ اوسط 37.37 جبکہ ایک روزہ میچز میں یہ اوسط 33.92 رنز تھی۔ 11مارچ 2009 کو انہیں ایک روزہ میچز کا نمبرون بائولر قرار دیا گیا۔

کلاسیکرا سری لنکا کی اس ٹیم کے اہم رکن تھے جس نے 2014 میں آئی سی سی کا ٹی 20ورلڈکپ جیتا۔ جون 2016 میں کلاسیکرا نے ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ دیا۔ کلاسیکرا سری لنکا کے واحد بائولر ہیں جو ایک دور میں ایک روزہ میچز کے نمبرون بائولر تھے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک ریکارڈیہ بھی ہے کہ انہوں نے پانچ مرتبہ ٹی 20میچز میں میڈن اوورز کرائے۔

ڈیل سٹین

کیا عمدہ فاسٹ بائولر ہیں ڈیل سٹین۔ ان کی برق رفتار گیندیں اب بھی بڑے بڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتی ہیں۔ انہیں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین بائولرز میں شمار کیا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ڈیل سٹین کو ایلن ڈونلڈ اور شان پولاک کے بعد جنوبی افریقہ کا سب سے اہم بائولر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تیز اور سوئنگ بائولنگ کا جواب نہیں۔ کرکٹ کے کچھ نقاد ان پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ ڈیل سٹین سست وکٹوں پر اتنے کارآمد نہیں جتنا کہ تیز وکٹوں پر۔ بہرحال یہ ایک رائے ہے۔ سٹین نے جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک روزہ میچ میں نیوزی لینڈ کے پیسر مچل میکیلناگن کی وکٹ کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ یہ منظر بھی کمال کا تھا۔ ایک پیسر نے دوسرے پیسر کو نہ صرف کلین بولڈ کیا بلکہ اس کی وکٹ بھی توڑ دی۔

ڈیل سٹین 93ٹیسٹ میچز میں 22.0رنز کی اوسط سے 439 وکٹیں اپنے نام کر چکے ہیں۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے دنیا کی ہر ٹیم کے بلے بازوں کو پریشان کیے رکھا۔ ان کی تیز گھومتی ہوئی گیندوں کو سمجھ کر کھیلنا بلے بازوں کیلئے ناممکن ہو جاتا تھا۔ ان کے یارکرز بھی زبردست ہوتے تھے۔ بہرحال کوئی جواب نہیں ڈیل سٹین کا جنہیں سٹین گن بھی کہا جاتا تھا۔

شعیب اختر

تاریخ کے تیز ترین بائولر شعیب اختر کے کارنامے بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے ان سوئنگنگ یارکرز نے جو طوفان مچائے رکھا وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے۔ انہوں نے شہرت بھی بہت حاصل کی بلکہ ان کی شہرت کا ڈنکا اب بھی بجتا ہے۔ وہ کرکٹ کھیلنے والے ہر ملک میں مقبول ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ ہو یا ایک روزہ میچز‘ شعیب اختر کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولا۔ 2002میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچ میں راولپنڈی ایکسپریس نے نیوزی لینڈ کے کھلاڑی آندرے ایڈم کی وکٹ کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ انہوں نے کئی بار اپنی تیز رفتار بائولنگ اور سوئنگ سے نامی گرامی بلے بازوں کو آئوٹ کیا۔شعیب اختر نے ٹیسٹ میچز میں 25.69رنز کی اوسط سے 178وکٹیں اپنے نام کیں۔ اسی طرح ایک روزہ میچز میں انہوں نے 24.97رنز کی اوسط سے 247کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیجا۔ ٹی 20میچز میں شعیب اختر نے 22.73 رنز کی اوسط سے 15وکٹیں حاصل کیں۔ یہ خاصا متاثر کن ریکارڈ ہے۔ اگر شعیب اختر 100ٹیسٹ میچز اور 300ایک روزہ میچز کھیلتے تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔ انہوں نے 12دفعہ ایک ٹیسٹ اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں اور دو دفعہ ایک ٹیسٹ میچ میں 10وکٹیں لینے کا کارنامہ سرانجام دیا۔

محمد شامی

بھارت کے برق رفتار بائولر محمد شامی نے 2016میں انگلینڈ کے افتتاحی کھلاڑی کوالاسٹر کک کو نہ صرف کلین بولڈ کیا بلکہ ان کی وکٹ بھی توڑ دی۔ انہوں نے یہ کارنامہ انگلینڈ میں سرانجام دیا۔

دائیں ہاتھ سے برق رفتار بائولنگ کرنے والے محمد شامی اب تک 50ٹیسٹ اور 179ایک روزہ اور 12ٹی 20میچز میں اپنی خوبصورت بائولنگ کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ٹیسٹ میچز میں انہوں نی 27.6رنز کی اوسط سے 180وکٹیں اپنے نام کی ہیں جبکہ ایک روزہ میچز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 148ہے۔ ٹی20میچز میں وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے 35.7رنز کی اوسط سے 12وکٹیں حاصل کی ہیں یعنی 12ہی میچز اور 12ہی وکٹیں۔

عمر گل

پاکستان سے تعلق رکھنے والے عمر گل ایک شاندار میڈیم فاسٹ بائولر تھے۔ ان کے پاس سوئنگ بھی تھی‘ ریورس سوئنگ کا ہتھیار بھی تھا اور وہ یارکر بھی بہت اچھا کرتے تھے۔ انہوں نے 2011کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کے ایک کھلاڑی کی وکٹ توڑ دی تھی۔ لہٰذا ان کا نام بھی تاریخ کے صفحات کی زینت بن چکا ہے۔ اب ذرا عمر گل کے ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہیں۔36سالہ عمر گل نے 47ٹیسٹ‘ 130ایک روزہ اور 60ٹی 20میچز میں حصہ لیا۔ انہوں نے ٹیسٹ میچز میں 34.9رنز کی اوسط سے 163وکٹیں اڑائیں۔ عمر گل کو بہت عمدہ بائولر قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2003سے 2013تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر
 

Advertisement