کراچی: (دنیا نیوز) کراچی میں موٹرسائیکلیں چوری اورچھیننے کی وارداتیں نہ رک سکیں، 2013 سے اب تک 2 لاکھ 31 ہزار سے زائد شہریوں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کردیا گیا۔
کراچی میں موٹرسائیکل چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں ہر سال اضافہ ہونے لگا۔ سندھ، بلوچستا ن میں چوری کی موٹرسائیکلوں کے خریدار اور مارکیٹیں اس جرم کو کم ہونے نہیں دے رہیں۔ آٹھ برسوں میں کراچی سے دو لاکھ اکتیس ہزار موٹرسائیکلیں چوری یا چھینی گئیں۔
شہر میں سو سے زائد پولیس اسٹیشنز ہیں تاہم موٹرسائیکل لفٹنگ کی سب سے زیادہ وارداتیں بیس پولیس اسٹیشنز کی حدود میں ہوئیں۔ شہر کے متوسط طبقے کی آبادیوں والے علاقے موٹرسائیکل لفٹرز کا آسان ہدف ہیں۔
شاہراہ فیصل، زمان ٹاﺅن، سرجانی، کورنگی صنعتی ایریا اور سچل سمیت بیس پولیس اسٹیشنز ایسے ہیں جہاں موٹرسائیکل لفٹرز کے کئی گروہ سرگرم ہیں۔
ایس ایس پی ویسٹ سہائے عزیز کہتی ہیں کہ ملزمان پکڑے جاتے ہیں،ضمانت ملنے کے بعد رہا ہوکر دوبارہ وارداتیں کرتے ہیں۔
چھینی و چوری کی موٹرسائیکلیں آخر جاتی کہاں ہیں۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر سے موٹرسائیکل لفٹرز تین مختلف جہگوں پر فروخت کرتے ہیں ،
پہلا مرکز بلوچستان میں اوتھل اور لسبییلہ ہے۔ دوسرا ٹھٹھہ اور بدین جبکہ تیسرا مرکز جیکب آباد اور اس سے متصل علاقے ہیں۔
ان مراکز پر چوری کی موٹرسائکلیں پارٹس کی صورت میں بھی بکتی ہیں، پولیس حکام کہتے ہیں چوری کی موٹرسائیکلیں اصل قیمت سے نصف یا اس سے کم ہونے کے باعث بہت بڑی تعداد میں خریدار اور مارکیٹس موجود ہیں۔ شہری کہتے ہیں حکومت کو ایسے ملزمان کے خلاف بھرپور کریک ڈاﺅن کرنا چاہئے۔
پولیس حکام کے مطابق موٹرسائیکل چوری کرنے کے بعد لفٹر15 سے 20 ہزار میں موٹرسائیکل فروخت کردیتے ہیں۔