لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کی معروف اور خوبرو اداکارہ ماریہ واسطی نے کہا ہے کہ عمران خان کو بطور وزیر اعظم محض ایک جملے میں ملکی نصف آبادی کو قصور وار نہیں ٹھہرانا چاہیے تھا۔ ریپ بہت بڑا مسئلہ ہے، اسے یوں پردے میں چھپایا نہیں جا سکتا۔۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے اداکارہ ماریہ واسطی نے وزیر اعظم عمران خان کے حال ہی میں امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں خواتین کے لباس کے معاملے پر بھی بات کی۔
ماریہ واسطی سے پوچھا گیا کہ وہ وزیر اعظم کے بیان کو کیسے دیکھتے ہیں، جس میں انہوں نے خواتین کے لباس کو ’ریپ‘ سے جوڑا ہے؟اس سوال پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کی جانب سے اگر کوئی غلط بات پہلی بار کی جا رہی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس نے غلطی سے کہی ہے لیکن اگر دوسری بار بھی وہ شخص وہی غلطی دہرائے تو پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذکورہ غلطی اس کی پالیسی ہے۔ ریپ بہت بڑا مسئلہ ہے، اسے یوں پردے میں چھپایا نہیں جا سکتا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، انہیں ایک ہی لائن میں ملک کی نصف آبادی کو قصور وار نہیں ٹھہرانا چاہیے تھا۔ مذکورہ معاملہ بہت پیچیدہ اور بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی مسئلہ بھی ہے۔
سینئر اداکارہ کا کہنا تھا کہ جنسی ہراسانی اور ریپ کو جرم اور غلط کام کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے اور متاثر کو صرف متاثر کی نظر سے دیکھا جائے کیوں کہ متاثر کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔ کسی بھی بچے، بچی، خاتون یا مرد کے ساتھ غلط ہو، اسے متاثر کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ہمیں ’ریپ‘ کو ایک جرم کے طور پر دیکھنا اور اسے حل کرنا ہوگا اور اس کو خواتین کے لباس سے جوڑنا غلط ہے۔
ماریہ واسطی کا مزید کہنا تھا کہ ملکی بازاروں یا عام جگہوں پر جائیں، کوئی بھی ننگا یا نیم عریاں نہیں گھومتا، ہر کسی کے پاس تفریح کے لیے موبائل موجود ہے اور کسی کا لباس دوسرے کو راغب نہیں کرتا۔
اداکارہ نے شوبز میں جنسی ہراسانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مذکورہ مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے، کیوںکہ بعض اوقات عورتوں کی خاموشی یا انکی جانب سے کوئی سخت رد عمل نہ دیے جانے کو ان کی رضامندی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملات صرف مرد حضرات ہی کرتے ہیں۔
پروگرام میں بات کرتے ہوئے ماریہ واسطی نے یہ بھی بتایا کہ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر وہ ٹینس کھیل کر چیمپیئن بنیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب ڈراموں کا معیار گرا ہے، کیوںکہ اب ٹی وی چینلز زیادہ ہوگئے، کام زیادہ ہو رہا ہے مگر معیار پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔