ساحر لدھیانوی: ایک منفرد شاعر

Published On 24 October,2023 12:27 pm

لاہور: (محمد ارشد لئیق) برصغیر پاک و ہند میں متعدد شعراء ایسے گزرے ہیں جو نہ صرف غزل اور نظم میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری میں بھی وہ کمالات دکھائے کہ اہل ادب عش عش کر اٹھے۔

ایسے شعراء کی فہرست میں ایک نام ساحر لدھیانوی کا بھی ہے، لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے زمانے کے حوادث کو آشکارا کرنے والی شاعری پر مشتمل اپنا پہلا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ مکمل کیا، فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کی بحر میں لکھی گئی مشہور زمانہ نظم ’’آواز آدم‘‘ بھی انہوں نے یہیں شائع کی جس کی گونج سرکاری ایوانوں میں بھی سنی گئی، کہتے ہیں۔

دبے گی کب تک آواز آدم
ہم بھی دیکھیں گے
رہیں گے کب تلک جذبات برہم
ہم بھی دیکھیں گے

ان کی ساحرانہ شاعری حیران کر دینے والی تھی، وہ برصغیر کے ترقی پسند شعراء کی صف میں کم عمر بھی تھے اور نمایاں بھی، جذبات کی شدت ان کی شاعری کی پہچان ہے، دھیما لہجہ شناخت ہے، وہ تو اپنے اندر کی دنیا میں گم رہ کر باہر کی دنیا کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، دنیاوی معیارات سے تنگ بلکہ باغی تھے، ملاحظہ ہو۔

دنیا کی نگاہوں میں برا کیا، بھلا کیا
یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا
جھوٹ تو قاتل ٹھہرا، اس کا کیا
سچ نے بھی انسان کا خون بہایا ہے

وہ کبھی کبھار دنیا سے اس قدر مایوس ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی مل جانے کی خوشی سے ماوراء نظر آتے ہیں، کیونکہ چہار سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، ہر انسان کسی نہ کسی روگ کے ساتھ جی رہا ہے، پوری دنیا کا یہی چلن ہے۔ کہتے ہیں

ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہاں اک کھلونا ہے انسان کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی

’’تلخیاں‘‘ کا تیسرا ایڈیشن زیر طبع تھا کہ انڈیا میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے، خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، شاعری کی فکر کس کو تھی، جس سے انڈیا میں نہ صرف اس ایک مجموعہ کلام کی اشاعت متاثر ہوئی بلکہ علم و ادب کی تمام شمعیں ایک ایک کر کے بجھنے لگیں۔

ساحر خود کہتے ہیں، ’’اس سے وہ تمام قدریں خطرے میں پڑ گئیں جن سے ادب، آرٹ اور تہذیب کے سر چشمے پھوٹتے تھے، حالات ادب اور ادیب، دونوں کیلئے مخدوش ہیں، کوئی دوسری کتاب آپ تک اسی وقت پہنچ سکے گی جب ترقی اور انقلاب کی طاقتیں رجعت پسند طاقتوں پر اس حد تک قابو پا لیں گی کہ موجودہ کشت و خون کا ہنگامہ رک جائے اور تہذیبی زندگی کو از سر نو ترتیب دینے کے امکانات فراہم ہوں‘‘۔

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

ان کے نزدیک زندگی سے بڑی حقیقت کوئی نہیں، اس میں خوابوں کی کوئی حیثیت ہے نہ خوابوں میں رہنے والوں کا کوئی مقام، وہ کہتے ہیں، کام، کام اور کام۔ ان کی شاعری میں خوابوں میں جینے والی قوموں کیلئے محکومی کے سوا کوئی راستہ نہیں، نظم ’’شہزادے‘‘پڑھ لیجئے۔

ذہن میں اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلاء میں کھو جاؤ
مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جاؤ
ابر پارو پہ چلو، چاند ستاروں پہ اڑو

لہٰذا یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اشعار کے بارے میں ان کا نکتہ نظر سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ ایک ایک شعر کے فنی لوازمات اور جمالیاتی پہلو کے قائل ہیں لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا مخاطب پڑھا لکھا، امیر طبقہ ہی نہیں ہے، وہ مزدوروں اور کسانوں سے بھی مخاطب ہیں، وہ کہتے تھے ’’سماج کے اس طبقے کو حکمران جماعتوں نے علم، آرٹ اور ادب کے سرچشموں سے بہت دور کر رکھا ہے، اس طبقے تک پہنچنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی بات سادہ زبان میں کہیں‘‘، وہ کتنی بڑی بات سادہ سے لہجے میں کہہ جاتے ہیں، جیسا کہ یہ پیغام!

اے رہبر ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

علامہ اقبالؒ کی طرح وہ بھی بڑی طاقتوں کے جبر سے نالاں تھے۔کہتے ہیں۔

تم ہی تجویز صلح لاتے ہو
تم ہی سامان جنگ بانٹتے ہو
تم ہی کرتے ہو قتل کا ماتم
تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو

امرتا پریتم کے ساتھ ان کے معاشقے کا خوب شہرہ رہا، امرتا کے لکھے گئے خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ امرتا ساحر کی محبت میں گرفتار تھیں، وہ ساحر کو ’’میرا شاعر‘‘، ’’میرا محبوب‘‘،’’میراخدا‘‘ اور ’’میرا دیوتا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔

دوسری جانب ساحر اپنے اور امرتا کے ایک ساتھ مستقبل کے بارے میں اتنا پراعتماد نہیں تھے، ان کی شاعری میں محبت کی حیثیت ثانوی تھی پھر بھی امرتا اور ان دونوں کی نامکمل محبت نے انہیں فلم ’’دوج کا چاند‘‘ (1964ء) کیلئے ’’محفل سے اٹھ جانے والو‘‘ لکھنے پر مجبور کر دیا۔

محفل سے اٹھ جانے والو
تم لوگوں پر کیا الزام
تم آباد گھروں کے واسی
میں آوارہ اور بدنام

وہ آج بھی اپنے پیغام کی صورت میں زندہ ہیں،کیا ہم ان کے یہ اشعار بھول گئے

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے

ان کی شہرہ آفاق نظم ’’تاج محل‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

ساحر لدھیانوی کی گیت نگاری
ساحر لدھیانوی کی فلمی گیت نگاری کی بات کریں تو وہ انہوں نے 1950 میں شروع کی، گورودت نے انہیں اپنی فلم ’’بازی‘‘ کے نغمات لکھنے کی دعوت دی، ساحر نے ایسے دلکش گیت لکھے کہ لوگوں پر سحر طاری ہوگیاخ اس کے بعد پھر ساحر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، انہوں نے ساحر لدھیانوی کی یادگار فلم ’’پیاسا‘‘ کے بھی گیت لکھے، 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’پھر صبح ہو گی‘‘ کے نغمات بھی ساحر لدھیانوی کے تھے۔ یہ رمیش سہگل کی فلم تھی۔

خاص طور پر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے، اس کے علاوہ انہوں نے ’’نیل کمل، دیوداس، ممبئی کا بابو، ہم دونوں، نیا دور، وقت، ترشول، تاج محل، داغ، کبھی کبھی، داستان اور کئی دوسری فلموں کے گیت لکھے، ان کی فلموں کی اکثریت نے باکس آفس پر بہت کامیابی حاصل کی، ان کے گیتوں کی موسیقی ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، خیام، روشن، شنکر جے کشن اور روشن نے مرتب کی، انہیں کئی ایوارڈ ملے جن میں فلم فیئرایوارڈ بھی شامل ہے۔

ساحر لدھیانوی کو نہ صرف اپنی غزلوں اور نظموں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلکہ ان کے عدیم النظیر فلمی گیت بھی ان کی یاد دلاتے رہیں گے، بڑے بڑے انعامات پانے کے بعد ان کی کیفیت کچھ یوں تھی۔

میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل مری ہستی ہے
پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے
اور آ کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کا قصہ تھے
میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

تعارف
ساحر لدھیانہ کے اک جاگیردار گھرانے میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے اور ان کا نام عبدالحئی رکھا گیا، والدین میں علیحدگی کے باعث ان کی پرورش ننہال میں ہوئی، یہیں انہیں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور میٹرک میں پہنچتے پہنچتے وہ شعر کہنے لگے۔

1939ء میں انٹر کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا، اسی زمانہ میں ان کا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا اور وہ کمیونسٹ تحریک کی طرف راغب ہوگئے، بی اے کے آخری سال میں اپنی ہم جماعت پر عاشق ہوئے اور کالج سے نکالے گئے، کالج کی فضا نے انہیں ایک خوبصورت رومانی شاعر بنا دیا۔

1943ء میں ساحر نے لاہور کو مسکن بنا لیا جہاں وہ دیال سنگھ کالج میں طلباء یونین کے صدر بن گئے، بڑے ہوئے تو شہرہ آفاق جرائد کی ادارت سنبھال لی، ’’ادب لطیف‘، ’’شاہکار‘‘ اور ’’سویرا‘‘ انہی کے لگائے ہوئے پودے ہیں، یہ اب بڑا ادبی حوالہ بن چکے ہیں۔

ان کا پہلا مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ 1944 میں شائع ہوا، 1949ء میں وہ لاہور سے واپس بمبئی چلے گئے، یہیں کوٹھی بنائی، جس کا نام اپنے مجموعہ کلام ’’پرچھائیاں‘‘ کے نام پر رکھا، آخری سانس بھی اسی کوٹھی میں لی، ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1971ء میں ’’پدم شری‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔

1972ء میں مہاراشٹر حکومت نے انہیں ’’جسٹس آف پیس‘‘ایوارڈ دیا، 1973ء میں ’’آو کہ کوئی خواب بْنیں‘‘ پر انہیں’’سویت لینڈ نہرو ایوارڈ‘‘ اور ’’مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ‘‘ دیا گیا، ان کی نظموں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں، 8 مارچ 2013ء کو ان کی خدمات کے اعتراف میں محکمہ ڈاک نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا، 1980ء میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔

ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔