لاہور: (ویب ڈیسک) کرونا وائرس کی عالمی تباہی کی لپٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اس وقت 1 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ جعلی خبریں اس خوف کو مزید بڑھکاوا دے رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ہمارے سامنے جعلی خبروں کی بھرمار ہے اور اس بار یہ کورونا وائرس کے وبائی مرض کے بارے میں ہیں۔ فیس بک سے لے کر واٹس ایپ تک ہر جگہ ہی کثرت سے غلط معلومات شیئر کی جا رہی ہیں جس میں وبا کے پھیلنے کی وجوہات سے لے کر اس سے بچنےکے طریقے شامل ہیں۔
بی بی سی فیوچر پر بہت سارے دعوؤں کی تردید پیش کی گئی ہے جن میں دھوپ کی روشنی، گرم موسم اور پانی پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے جیسے مفروضے شامل ہیں۔
بی بی سی کی ریئلٹی چیک ٹیم کورونا وائرس کے متعلق مقبول دعوؤں کی بھی جانچ کر رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت باقاعدگی سے قسم کے افسانوی دعوؤں کی تردید کرنے والے صفحے کو اپ ڈیٹ بھی کر رہا ہے۔
اس قسم کے دعوے بعض اوقات نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ حالیہ مثال ایران کی ہے جہاں خبروں کے مطابق کورورنا کی نسبت زیادہ لوگ ایک نہایت تیز شراب پینے سے ہلاک ہوئے۔ وہاں مشہور ہو گیا تھا کہ شراب پینے سے آپ کورونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔
قسم کے انتہائی خطرناک نتائج کے علاوہ، بظاہر معمولی نوعیت کی افواہوں اور غلط فہمیوں سے بھی لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دی جاتی ہیں کہ وہ اگر ایسا کریں گے تو اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ حکومت کی طرف سے دی جانے والی ہدایات پر اعتبار نہیں کرتے اور متعلقہ اداروں اور تنظیموں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔
اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر رہے ہیں۔ مثلاً ’یو گوو‘ اور ہفت روزہ ’دی اکانومسٹ‘ کے حالیہ مشترکہ جائزے میں دیکھا گیا کہ 13 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کووڈ 19 محض دھوکہ ہے اور اس میں کوئی سچائی نہیں، کیونکہ 49 فیصد کا کہنا تھا کہ وائرس کچھ لوگوں نے خود بنایا ہے۔
غلط معلومات کا اندازہ کسی حد پیغام کی نوعیت سے ہی ہو جاتا ہے۔ آج کل سارا دن ہم پر معلومات کی بمباری ہوتی رہتی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ ہم کسی خبر کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ عموماً اپنی چھٹی حس کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
بی بی سی فیوچر کی تحقیق میں دیکھا تھا کہ جھوٹی خبریں یا فیک نیوز پھیلانے والے اپنے پیغام کو ’سچ‘ ثابت کرنے کے لیے کچھ سادہ ترکیبیں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہم عقل استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
مثلاً ہم نہیں دیکھتے کہ خبر کا ماخذ کیا ہے، اصل میں کہاں سے آئی ہے۔ محقق نے صحیح کہا تھا کہ جب کسی پیغام میں خیالات ایک بہاؤ میں ہوتے ہیں، تو لوگ اپنا سر اثبات میں ہلانا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بات واقعی درست ہے۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے منسلک آئرین نیومین نے تحقیق میں دیکھا ہے کہ اگر کسی بیان کے ساتھ تصویر لگی ہوتی ہے تو ہمارا یقین بڑھ جاتا ہے کہ خبر سچی ہے، یہاں تک کہ خبر کے ساتھ تصویر کا براہ راست تعلق نہ بھی بنتا ہو تو ہم اسے درست سمجھنے لگتے ہیں۔
مثلاً ان دنوں آپ کسی بھی نئے دعوے یا خبر کے ساتھ کورونا وائرس کی کوئی بھی تصویر لگا دیں، تو ہم اسے مان لیتے ہیں کیونکہ اس تصویر سے ہمارے ذہن میں وائرس کی واضح شبیہ آ جاتی ہے اس طرح ہمارا ذہن خبر کو بڑی تیزی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے اور ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں۔
تصویروں کے علاوہ جھوٹی خبروں میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جیسے کوئی اپنی آپ بیتی سنا رہا ہو۔ اسکے علاوہ خبر کو سچا ثابت کرنے کے لیے کسی حقیقت یا اعداد و شمار کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً کسی مشہور تحقیقی مرکز یا طبی ادارے کا نام وغیرہ۔ یوں ہمیں خبرکے اندر کی تمام باتیں قابلِ اعتبار لگتی ہیں اور باتیں ان درست معلومات کے ساتھ آسانی سے جُڑ جاتی ہیں جو ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں۔
اسی طرح اگر ہم شروع میں کسی خبر کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ چیز جب ہمیں بار بار فیس بُک وغیرہ پر نظر آتی ہے تو اس بات کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے کہ ہم اس پر یقین کرنے لگیں۔
یوں اگر کوئی پیغام ہمارے سامنے بار بار دھرایا جاتا ہے، چاہے وہ ایک ہی بیان کیوں نہ ہو، اس کی سچائی ہمیں مانوس لگنے لگتی ہے اور ہم اسے افواہ کی بجائے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔