واشنگٹن: (ویب ڈیسک) چین اور امریکا کے درمیان ایک مسئلہ سر اٹھا رہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو متعدد بار اپنی پریس کانفرنسوں میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلنے والا کورونا وائرس دراصل چینی وائرس ہے جو چین کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا، تاہم امریکی اور یورپی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے چینی لیبارٹری میں تیار کرنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے جھوٹا قرار دیدیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا؟۔ امریکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور نیشنل سیکیورٹی کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی گوشت مارکیٹ سے نہیں پھیلا بلکہ اسے ممکنہ طور پر کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اگرچہ امریکی حکومت کے زیادہ تر عہدیداروں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم پھر بھی حکومت اور خفیہ ادارے ملکر اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ کیا واقعی کورونا وائرس حیاتیاتی ہتھیار ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک سے بات کرتے ہوئے امریکی اور یورپی سائنسدانوں نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار نہیں ہوا یا انسانوں کا بنایا ہوا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر چین پر کورونا وائرس بنانے کا الزام لگا دیا
یونیورسٹی آف مشی گن میڈیکل سکول کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور وائرسز کی ارتقا کے ماہر ایڈم لورنگ نے کہا کہ یہ خیال ایک سازشی تھیوری کا نتیجہ ہے اور دستیاب ڈیٹا اس کی حمایت نہیں کرتا۔
جریدے نیچر میڈیسین میں وائرس کی بنیاد کے حوالے سے شائع تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مریضوں اور متعدد جانوروں میں کورونا وائرس کے جینوم سیکونز کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کسی میزبان جانور میں گیا اور انسانوں میں منتقل ہونے کے بعد مزید تبدیلیوں کے عمل سے گزرا۔
انہوں نے کہا کہ سارس کووڈ 2 وائرس (نئے نوول کورونا وائرس کا سائنسی نام) پہلے دریافت ہونے والے ان کورونا وائرسز سے جینیاتی لحاظ سے کافی مختلف ہے جن پر لیبارٹری میں کام ہوا ہے، درحقیقت جینیاتی تبدیلیاں کسی لیبارٹری سے فرار کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں۔
فرانس کی سوربون یونیورسٹی میوزم آف نیچرل ہسٹری کے پروفیسر الیگزینڈر ہسانین کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی لیبارٹری میں کوئی حادثہ نہیں ہوا، مگر سارس کوو 2 ماضی کے وائرسز سے بہت زیادہ قریب سے جڑا ہوا نہیں۔
درحقیقت ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں اس کا کوئی سیکونس (یہاں تک کہ جزوی) بھی موجود نہیں اور کووڈ 19 کی وبا گزشتہ سال نومبر/ دسمبر میں پھیلنا شوع ہوئی جبکہ سارس کی وجہ 2002 اور 2003 میں سامنے آئی تھی۔
انہوں نے زور دیا کہ سوشل میڈیا سے پھیلنے والے اس تنازع کا حل یہی ہے کہ نئے ڈیٹا کو فراہم کیا جائے یعنی چمگادڑوں، پینگولینز اور دیگر ممکنہ جانوروں کے وائرل جینول سیکونسز سامنے لائے جائیں، تاکہ اس وبا کی بنیاد کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی شک نہیں کہ چینی محققین اس پر بہت زیادہ متحرک انداز سے کام کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ نیچر میڈیسین میں امریکا کے سکریپس ریسرچ انسٹیٹوٹ، آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی، ایڈنبرگ یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور تولین یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا تھا کہ کورونا وائرسز کی متعدد اقسام کے دستیاب جینوم سیکونس کا موازنہ کرنے کے بعد ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ یا کورونا وائرس قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔
کورونا وائرسز جراثیموں کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف نوعیت کے امراض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے پہلا کورونا وائرس 2003 میں نمودار ہونے والا سارز تھا جس سے چین میں وبا کا آغاز ہوا تھا۔ اس نسل کے وائرس سے دوسری بڑی وبا 2012 میں وائرس سے سعودی عرب میں پھیلنا شروع ہوئی تھی۔
گزشتہ سال 31 دسمبر کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی وبا سے آگاہ کیا تھا جسے 20 فروری 2020 کو سارز کوو 2 کا نام دیا گیا جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔
اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 8 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی چینی سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم کا سیکونس تیار کرلیا تھا اور ڈیٹا کو دنیا بھر سے شیئر کیا۔
تحقیق میں سائنسدانوں نے متعدد تحقیقی اداروں کے اشتراک کے ساتھ اس سیکونس ڈیٹا کی کھوج سے اس کی بنیاد اور ارتقا کو جاننے کی کوشش کی، جس کے لیے وائرس کے متعدد نمایاں فیچرز پر توجہ دی گئی۔
سائنسدانوں نے وائرس کے سپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ سپائیک پروٹینز میں موجود آر بی ڈی پورشن انسانی خلیات کے باہر موجود ریسیپٹر ایس 2 کو موثر طریقے سے ہدف بناتا ہے۔
سپائیک پروٹین اتنے موثر طریقے سے انسانی خلیات کو جکرتے ہیں کہ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی نتیجہ تو ہوسکتا ہے انسانوں کے ہاتھوں جینیاتی تدوین کا نہیں۔
اس وائرس کے قدرتی ہونے کا ثبوت اس کا مجموعی مالیکولر سٹرکچر ہے، اگر کوئی ایک کورونا وائرس کو جینیاتی طور پر بدلے، تو وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تعمیر کرے گا جو وائرس کی جانب سے امراض پھیلانے کا ذریع ہے مگر اس نئے وائرس میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرسز سے ملتی جلتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کے یہ 2 فیچر یعنی اسائیک پروٹین کا آر بی ڈی پورشن اور اس کی ریڑھ کی ہڈی لیبارٹری میں کی جانے والی تدوین کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں کے تیار کرنے کی قیاس آرائیوں کا اب خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر چینی حکومت نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرنے والا کورونا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا۔
چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ ڈبلیو ایچ او بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا کسی لبیارٹری میں تیار نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق لی جیان ژاؤ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب میں مذکورہ وضاحت دی۔
ترجمان دفتر خارجہ سے کورونا وائرس کو ووہان کی لیبارٹری میں تیار کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ کورونا کو کسی لیبارٹری میں تیار کرنے کے شواہد نہیں ملے۔