لاہور: (ویب ڈیسک) 2020ء تک 10 کروڑ جعلی ویڈیوز آن لائن پلیٹ فارم پر موجود تھیں، عالمی سطح پر معیشت کو جعلی ویڈیوز کے باعث ایک سال کے دوران تقریباً 78 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
تفصیلات کے مطابق ٹیکنالوجی کی اس جدت والے دور میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر بہت ساری ویڈیو دیکھنے کو ملتی ہیں ، اس دوران ویڈیو دیکھنے والوں کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ ویڈیو اصل ہے یا جعلی۔
2020ء تک 10 کروڑ جعلی ویڈیو آن لائن پلیٹ فارم پر موجود تھیں، ان سے عالمی سطح پر معیشت کو تقریباً 78 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جولائی 2019ء کے میں امریکی ایوان نمائنندگان میں نٹیلی جنس کمیٹی کے چیئر مین ایڈم نے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل حکام سے دریافت کیا تھا کہ جعلی ویڈیو سے متعلق کمپنیوں کی پالیسیز کیا ہیں، اور اس سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس میٹنگ میں شرکت کے بعد فیس بک کے مالک نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر متعدد بار آگاہی چلائی اور جعلی خبروں اور جعلی ویڈیوز کو اپنے پلیٹ فارم سے ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیا جس کے بعد سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹ ٹویٹر، انسٹا گرام، یوٹیوب سمیت دیگر جگہوں پر بھی جعلی مواد کو ہٹانا شروع کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ حالیہ عرصے کےدوران کورونا وائرس کی مہلک وباء کے باعث جعلی خبروں کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہے، کورونا وائرل سے متعلق حقائق جاننے کے لیے بھی سوشل میڈیا پر لوگ خبروں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، خبروں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک جعلی خبروں کو کنٹرول میں لانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں، سب سے زیادہ سخت قانون سنگا پور میں متعارف کروائے گئے ہیں جبکہ حالیہ کے دوران بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، ہنگری سمیت دیگر جگہوں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے اس وباء سے نجات حاصل کرنے کی سب سے بہترین طریقہ آگاہی مہم چلانا ہے۔