ینگون: (ویب ڈیسک) میانمار میں فوجی مارشل لاء لگنے کے بعد سوشل میڈیا پر چند تصویریں تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ میانمار میں فوج کی طرف سے مارشل لاء لگنے کے بعد مسلمانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ یہ تصویر جعلی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر 13 جنوری 2020ء کو ایک تصویر شیئر کی گئی جسے اب تک 87 ہزار سے زائد مرتبہ لوگوں نے دیکھا ہے۔
فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ یا اللہ برما کے مسلمانوں کی مدد فرما، آمین کہہ کر پوسٹ کوضرور شیئر کریں۔ جزاک اللہ
اس تصویر کے کیپشن میں مزید لکھا ہے کہ صرف ایک منٹ برما کے مسلمانوں کے لیے۔ یا اللہ برما کے مسلمانوں کی مدد فرما، آمین لکھ کر شیئر کریں۔
اے ایف پی کے مطابق یہ پوسٹ 2017ء کے ملٹری کریک ڈاؤن کے بعد شیئر کی گئی، اس وقت میانمار میں موجود مسلم کمیونٹی پر جینا حرام کر دیا گیا تھا جس کے باعث 8 لاکھ کے قریب افراد سرحد عبور کر کے بنگلا دیش چلے گئے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق میانمار میں فروری کے مہینے میں فوج نے مارشل لاء لگایا تو سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر تیزی سے یہ تصویر وائرل ہونے لگی۔
اے ایف پی کے مطابق 13 فروری 2021ء کو اطلاعات موصول ہوئیں کہ فوج کی طرف سے مارشل لگاء لگائے جانے کے بعد میانمار میں مسلمان شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر کے بارے میں تحقیق کے دوران پتہ چلے کہ یہ تصویر جعلی ہے۔ کیونکہ جس تصویر کو شیئر کیا جا رہا ہے، یہ تصویر میانمار نہیں بلکہ تھائی لینڈ کی ہے، 2004ء کے دوران تھائی حکام نے چند مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اصلی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 300 سے زائد مظاہرین کو پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے 25 اکتوبر 2004ء کو حراست میں لیا ہے، درجنوں لوگ تھائی سکیورٹی فورسز اور کے ساتھ جھڑپ کے دوران زخمی ہوئے ہیں جبکہ سکیورٹی حکام نے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق نیچے دی گئی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس تصویر کو فوٹو شاپ کر کے پھیلایا جا رہا ہے۔