جنیوا: (ویب ڈیسک) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا وائرس کو عالمگیر وبا قرار دے دیا ہے کیونکہ یہ سو سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی جانب سے عالمگیر وبا کی اصطلاح کسی نئے مرض کے دنیا بھر میں پھیلنے پر استعمال کی جاتی ہے اور اس کا تعین کسی مرض کے جغرافیائی بنیاد پر پھیلنے، اس کی شدت اور معاشرے پر اس کے اثرات کے تحت کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اسے انفیکشن کی تشویشناک حد تک پھیلنے پر فکرمند ہے مگر عالمگیر وبا کی اصطلاح کا مطلب ہار ماننا نہیں بلکہ اس کی درجہ بندی اور اقدامات کے مطالبے کے لیے ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نے جنیوا میں پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ کرورنا کی درجہ بندی عالمگیر وبا کے طور پر کی گئی ہے، ہم نے پہلے کبھی کسی کرونا وائرس سے ایسی عالمگیر وبا کو پھیلتے نہیں دیکھا۔
یہ بھی پڑھیں:کرونا وائرس عالم گیر وبا بننے کے قریب ہے: عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارے نے جنوری میں کووڈ 19 کو عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا، یہ اصطلاح زیادہ سنگین، اچانک، غیرمتوقع وبا کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بین الاقوامی سطح پھیل جاتی ہے اور اس کی روک تھام کے لیے ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس دسمبر میں سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوا تھا اور اب تک 107 ممالک میں اس سے ایک لاکھ 17 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 4 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، مگر 65 ہزار سے زائد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔
چین میں اس وائرس کی شدت میں اب نمایاں کمی آچکی ہے اور 10 مارچ کو گزشتہ 4 ماہ کے دوران سب سے کم 17 کیسز کی تصدیق ہوئی۔ تاہم اٹلی اور امریکا میں اس کی شدت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اٹلی میں 11 مارچ کی سہ پہر تک کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 10 ہزار 149 تک جا پہنچی تھی جب کہ امریکا میں مریضوں کی تعداد ایک ہزار 30 تک جا پہنچی تھی۔
BREAKING
— World Health Organization (WHO) (@WHO) March 11, 2020
"We have therefore made the assessment that #COVID19 can be characterized as a pandemic"-@DrTedros #coronavirus pic.twitter.com/JqdsM2051A
یورپ میں کرونا مریضوں کی تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ’اٹلی، دوسرے نمبر پر فرانس، تیسرے نمبر پر اسپین، چوتھے پر جرمنی اور پانچویں نمبر پر سوئٹزرلینڈ‘ ہے۔
اٹلی کے علاوہ یورپی ملک جرمنی، فرانس اور سپین میں ڈیڑھ ہزار یا اس سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں، جب کہ باقی تمام ممالک میں 500 سے کم اور 10 سے زائد مریض سامنے آئے ہیں اور تقریبا یورپ کے ہر ملک میں کرونا کے مریضوں کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
اگر ایشیا میں جنوبی ایشیائی خطے کی بات کی جائے تو اس خطے میں کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار یورپ سے کم ہے اور یہاں مجموعی طور پر بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان‘ کے مجموعی مریضوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔
جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کے مریض سوا ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں ہے، جہاں 11 مارچ کی سہ پہر تک مریضوں کی تعداد 60 تک جا پہنچی تھی، دوسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں مریضوں کی تعداد 20 تک جا پہنچی تھی۔ افغانستان میں 5، بنگلا دیش میں 3، سری لنکا میں 2، بھوٹان میں ایک اور نیپال میں بھی ایک مریض کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
جنوبی ایشیا میں جہاں کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر خطوں سے کم ہے، وہیں اس خطے میں اس مرض سے ہلاکتیں بھی بہت کم ہوئیں اور اس خطے میں کرونا وائرس کے صرف 4 مریض ہلاک ہوئے ہیں جن کا تعلق بھارت سے ہے۔ جنوبی ایشیا کے علاوہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بھی کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز نہیں جتنی امریکا اور یورپ میں ہے۔