کورونا وائرس: ماہرین نے تشویشناک مریضوں کی جان بچانے والی دوا تلاش کر لی

Last Updated On 16 June,2020 08:30 pm

لندن: (دنیا نیوز) کورونا وائرس کے علاج میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے، ماہرین نے تشویشناک مریضوں کی جان بچانے والی دوا تلاش کر لی ہے۔ کی قیمت صرف پانچ پاؤنڈز (تقریباً ایک ہزار روپے) ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’’بی بی سی‘‘ کے مطابق برطانوی ماہرین نے تشویش ناک مریضوں کی جان بچانے والی دوا تلا ش کرلی ہے، "ڈیکسا میتھا سون" سستا اسٹیرائڈ ہے جو تشویشناک مریضوں کی صحتیابی میں مدد دیتا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق "ڈیکسا میتھا سون "استعمال سے وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کی شرح اموات 40 فیصد تک کمی ہوئی، دوا کے استعمال سے آکسیجن لگے مریضوں کی شرح اموات میں 20سے 25 فیصد کمی ہوتی ہے۔

بی بی سی کے مطابق تجربات کی سربراہی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے کی، برطانیہ کے ہسپتالوں میں داخل 2 ہزار کورونا کے مریضوں پر دوا کے استعمال کا جائزہ لیاگیا۔

برطانوی میڈیا کے مطابق "ڈیکسا میتھا سون " کا استعمال وبا کے آغاز میں کیا جاتا تو 5 ہزار زندگیاں بچانے میں مدد ملتی، دوا کورونا کے صرف تشویشناک مریضوں پر موثر ہے، معتدل مریضوں پر موثر نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق "ڈیکسا میتھا سون " دمہ اور آرتھرائٹس کے علاوہ متعدد امراض کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، برطانیہ میں دوا کی قیمت صرف پانچ پاؤنڈز (تقریباً ایک ہزار روپے) ہے، دوا 1960 سے دنیا میں زیر استعمال ہے۔

پروفیسر لینڈرے کا کہنا ہے کہ اگر مناسب ہو تو ہسپتالوں میں مریضوں کو یہ دوا دی جا سکتی ہے، تاہم لوگوں کو خود سے یہ دوا گھروں میں نہیں کھانی چاہیے۔

ڈیکسامیتھازون ان لوگوں کے لیے فائدہ مند نہیں جن میں کورونا وائرس کی علامات شدید نہیں ہیں اور انھیں سانس کی تکلیف بھی نہیں۔

ریکوری ٹرائل نامی یہ آزمائش مارچ کے مہینے سے جاری ہے۔ اس آزمائش میں ملیریا کی دوا ہائڈروکسی کلوروکوین بھی شامل تھی جسے بعد میں ان خدشات کے پیشِ نطر بند کر دیا گیا کہ یہ دل کے عوارض اور ہلاکتوں میں اضافے کا باعث ہے۔

ایک دوسری اینٹی وائرل دوا ریمڈسیور جو کورونا وائرس سے جلد شفایابی میں مددگار ثابت ہوتی ہے پہلے ہی برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس یا این ایچ ایس پر علاج کے لیے دستیاب ہے۔

برطانیہ کے وزیرِ صحت میٹ ہینکاک نے ان نتائج کے بارے میں ٹویٹ کی: دنیا کی یہ پہلی مثال سائنس کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ میں بےحد خوش ہوں کہ ہم کو وڈ 19 کے علاج کی پہلا کامیاب ٹرائل کا اعلان کر سکتے ہیں۔

یہ معلومات ’ریکوری‘ نامی ایک ٹرائل سے حاصل ہوئی ہیں جسے مارچ میں برطانیہ میں شروع کیا گیا تھا اور اس میں 175 ہسپتالوں میں داخل ساڑھے 11 ہزار سے زیادہ مریضوں نے حصہ لیا تھا۔

مرکزی تحقیق کار مارٹن لینڈرے نے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو بتایا کہ یہ کئی لحاظ سے اہم پیش رفت ہے۔ چھ ماہ قبل یہ وبا شروع ہونے سے قبل ایک ایسے علاج کی تلاش جاری تھی جو موت کا خطرہ کم کر سکے اور اب تک ایسی کوئی دوا نہیں ملی تھی۔ اب مل گئی ہے۔ یہ نتائج واضح ہیں اور یہ دوا آج شام سے مریضوں کو دی جا سکتی ہے۔ یہ بہت اہم قدم ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ دوا زیادہ مہنگی بھی نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسی دوا ہے جس کی فراہمی میں یا تیاری میں وقت لگے۔ یہ دنیا بھر میں پہلے سے دستیاب ہے، اس لیے یہ بات انتہائی اہم ہے۔

برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس نے پہلے ہی ہسپتالوں کو یہ دوا استعمال کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔

این ایچ ایس کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر سٹیون پاوس نے کہا کہ یہ کو وڈ کے مریضوں کا علاج دریافت کرنے میں بہت اہم پیش رفت ہے، نہ صرف برطانیہ میں بلکہ دنیا بھر میں۔

 

ڈیکسامیتھاسون کام کیسے کرتی ہے؟

کرونا وائرس کے بارے میں معلوم ہے کہ انسانی جسم کا مدافعتی نظام وائرس کے خطرے کو بھانپ کر ضرورت سے زیادہ فعال ہو کر خود جسم کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا بڑا اثر پھیپھڑوں پر ہوتا ہے اور شدید بیمار مریض سانس نہیں لے پاتے۔ اس عمل کو ’سائٹو کائن سٹورم‘ کہتے ہیں۔

بظاہر اکثر مریض وائرس کی وجہ سے نہیں مرتے، بلکہ وائرس کے خلاف جسم کے شدید ری ایکشن سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ڈیکسامیتھاسون سٹیروئڈ ہے اور اسے پہلی بار 1957 میں تیار کیا گیا تھا اور یہ علاج کے لیے 1961 میں منظور ہوئی۔ یہ ایک ایسی دوا ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کی جانب سے خارج کردہ مضر مادوں کو کنٹرول میں کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوزش کو بھی کم کرتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو کو وڈ کے شدید مریضوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ڈیکسامیتھاسون کوئی نئی دوا نہیں ہے بلکہ پچھلے 59 برس سے کروڑوں لوگوں کو دی جا چکی ہے اس لیے اس کے مضر اثرات کے بارے میں پہلے سے معلومات موجود ہیں۔

اس تحقیق کی تفصیل ریکوری ٹرائل کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، اور تحقیق ابھی تک کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس تحقیق کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے نتائج فوری طور پر ویب سائٹ پر شائع کر رہے ہیں، جب کہ جریدے میں شائع ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔