سابق ایس ایس پی عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے روبرو پیش ہوئے۔ راؤ انوار نے معزز عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے آپ کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا سرنڈر کر کے کوئی احسان نہیں کیا۔ آپ لوگوں کو گرفتار کرتے ہو لیکن خود چھپے رہے، اتنے بہادر ہو؟
عدالت نے راؤ انوار کی سکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے تحقیقاتی ٹیموں پر راؤ انوار کے تمام اعتراضات بھی مسترد کر دیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مفرور کے ساتھ قانون کی کوئی ہمدردی نہیں، عدالتیں آزاد ہیں، کسی سے مشارورت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت کی درخواست خارج کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ڈاکٹر رضوان، ولی اللہ، ذوالفقار لاڑک اور آزاد خان بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ عدالت نے حساس اداروں کے نمائندے شامل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے راؤ انوار کے منجمد اکاؤنٹس کھولنے کا حکم جاری کرتے ہوئے نام بھی ای سی ایل میں رکھنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں راؤ انوار کو 14 گاڑیوں کے قافلے میں ڈپلومیٹک انکلیو سے اسلام آباد ایئرپورٹ لے جایا گیا، اس موقع پر ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ راؤ انوار کو جب کراچی لے جانے کیلئے ایئرپورٹ پہنچایا گیا تو انھیں وی وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہوئے عام مسافروں کو ڈومیسٹک لاؤنج میں داخلے سے روک دیا گیا جس سے انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب، اسلام آباد، ایلیٹ فورس اور سندھ پولیس کے بھرپور پروٹوکول اور مسلح اہلکاروں کے شور شرابہ سے عام مسافر خوف زدہ ہو گئے۔ کراچی پہنچنے پر پولیس سخت سیکیورٹی میں راؤ انوار کو اپنے ساتھ لے گئی۔
یاد رہے شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری کو جعلی پولیس مقابلہ ہوا جس میں راؤ انوار اینڈ کمپنی کے ہاتھوں نقیب اللہ سمیت 4 افرادجان سے مارے گئے، نقیب اللہ محسود کو ٹی ٹی پی کا دہشتگرد ظاہر کیا گیا۔ مقتول کی شناخت ہونے پر معاملے نے سوشل میڈیا پر سراٹھایا جس کے بعد اعلیٰ حکام کو نوٹس لینا پڑا، واقعے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی۔
19 جنوری کو راؤ انوار پہلی اور آخری بار تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ سینٹرل جیل میں قید دہشتگرد احسان نے نقیب محسود کو پہچاننے سے انکار کر دیا جس کے بعد تحقیقاتی کمیٹی نے جعلی مقابلے کی تصدیق کردی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا اور 20 جنوری کو ایس ایس پی ملیر کی عہدے سے چھٹی کر دی گئی۔
آئی جی سندھ نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وزرات داخلہ کو خط لکھ دیا۔ 21 جنوری کو نقیب اللہ کیس کا مقدمہ درج ہوا، راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے 22 جنوری کو سہراب گوٹھ میں محسود قبائل نے دھرنا دیا۔ 30 جنوری کو راؤ انوار نے دبئی کیلئے اڑان بھرنے کی کوشش کی لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایف آئی اے حکام نے روک لیا۔
27 جنوری کو کراچی رجسٹری میں ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی اور راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے 3 دن کی مہلت دی۔ 29 جنوری کو راؤ انوار اورایس ایس پی انویسٹی گیشن ملک الطاف کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ یکم فروری کو سپریم کورٹ نے گرفتاری کیلئے پولیس کو 10 دن کی مہلت دی اور راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
13 فروری کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بتایا کہ راؤ انوار نے خط لکھا ہے اور خود کو بیگناہ قرار دیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے سابق ایس ایس پی کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت دی اور ملزم کو عدالت میں پیش ہو کر صفائی پیش کرنے کا حکم دیا۔ 16 فروری کو سپریم کورٹ نے عدالت میں پیش نہ ہونے پر راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا۔ پولیس حکام گرفتار تو نہ کر سکے تاہم 62 روز بعد راو انوار خود سپریم کورٹ پہنچ گئے۔