کراچی: (دنیا نیوز) کراچی میں تہرے قتل کیس کے بیس سال بعد ہونے والے فیصلے نے قانونی سقم اور پولیس تفتیش کے ساتھ عدالتی نظام پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔ تہرے قتل میں گرفتار ملزمان بے گناہ ہیں تو قاتل کون ہے؟ ماں، باپ اور بھائی کے قتل کے الزام میں اسماء نواب اور اس کے ساتھیوں نے عمر قيد سے زيادہ عرصہ جيل ميں گزار دیا۔
اکتیس دسمبر 1998ء کراچی کے علاقے ملیر سعود آباد میں میاں بیوی اور بیٹے کا لرزہ خیز قتل ہوا، بیس سال بعد تہرے قتل کے ملزمان اسماء نواب، فرحان، جاوید صدیقی اور وسیم بے گناہ قرار دیدے گئے۔ عمر قید سے زیادہ سزا بھگتنے کے بعد بے گناہی نے کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ ملزمان بے گناہ ہیں تو قاتل کون ہے؟ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود ملزمان کو موت اور دس سال قید کی سزا کیسے ہوئی؟ سپریم کورٹ نے بیس سال بعد قرار دیا کہ ملزمان کے خلاف ثبوت اور شواہد نہیں، اسی نتیجے پر ماتحت عدالتیں کیوں نہیں پہنچ سکیں؟
ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین کہتے ہیں کہ ایک مقدمے کا بیس سال تک مختلف عدالتوں میں سماعت ہونا عدالتی نظام کے سقم کو ظاہر کرتا ہے۔ پولیس کے مطابق تفتیش میں ملزمہ اسماء نواب نے بتایا کہ والدین فرحان سے شادی میں رکاوٹ ڈال رہے تھے، اس لیے فرحان، جاوید صدیقی اور وسیم کے ساتھ مل کر انہیں قتل کیا۔
اس کے بعد بیس سال تک مقدمہ عدالتوں میں چلتا رہا لیکن پولیس ملزمان کے اعترافی بیان کے باوجود ٹھوس شواہد کیوں پیش نہ کر سکی۔ سابق جسٹس محمود عالم رضوی کا کہنا ہے کہ اگر تفتیش کا معیار اچھا ہو گا تو ملزم کو سزا بھی زیادہ ملے گی۔