نواز شریف کا غیر روایتی سیاست کا انداز قوم میں کافی مقبول

Last Updated On 02 May,2018 09:30 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ممکنہ عدالتی سزاؤں اور بدلتی ہوئی سیاسی فضاؤں کے باوجود مسلم لیگ ن کے اندر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے خیالات جذبات اور ان کی بدلتی ہوئی بولی ظاہر کر رہی ہے کہ وہ ایک طویل جدوجہد کے لئے قوم کو تیار کر چکے ہیں اور میدان عمل سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں لہٰذا ملکی حالات میں یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کے لئے نظریہ اور عوامی مقبولیت کو ساتھ رکھناممکن ہو گا؟ ممکنہ عدالتی سزا کے بعد کیا ان کی جماعت پر گرفت ختم ہو جائے گی؟ انتخابی مہم کے دوران اگر انہیں کرپشن الزامات پر سزا نہ ہوئی تو ان کا ووٹ بینک کتنا متاثر ہو گا ؟ اور کیا انتخابی مہم میاں شہباز شریف و دیگر چلائیں گے؟۔

28 جولائی کے فیصلے کے بعد بظاہر نواز شریف کو اقتدار کے کھیل سے باہر نکال دیا گیا تھا اور ن لیگ کی طرف سے ردعمل میں تاخیر نے یہ تاثر قوم میں پیدا کر دیا تھا کہ یہ جماعت پاکستان کے طاقت ور طبقات کے آگے کھڑے ہونے کی صلاحیت سے عاری ہے کیونکہ اس جماعت کی اٹھان اور اس کی قیادت کی سیاسی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جب ملک میں اسٹیبلشمنٹ براہ راست اقتدار میں تھی ، ماضی میں جب بھی نواز شریف نے ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ کیا تو میدان عمل میں وہ خود اکیلے کھڑے تھے اور پارٹی ایک روایتی مسلم لیگ ثابت ہوئی جس کا چراغ صرف اقتدار کی راہداریوں میں جلتا ہے۔ مگر اس بار نواز شریف پاکستان میں سول ملٹری عدم توازن، سیاستدانوں کی بے توقیری اور منتخب حکومتوں کے بے دست و پا ہونے کی کہانی بڑی خوب صورتی سے قوم کو بتا رہے ہیں۔ در حقیقت نواز شریف خود پہلی مرتبہ اقتدار سے باہر نکل کر ایسا موقف اپنا رہے ہیں جس سے قوم پہلے نا آشنا تھی۔ کیونکہ پاکستانی سیاست میں نواز شریف نے بنیادی ایشوز پر ایسا موقف کبھی بھی اختیار نہیں کیا۔

ماضی میں بھی نواز شریف لڑائی شروع کر کے بہت جلد دفاعی پوزیشن پر چلے جاتے تھے۔ اس بار نواز شریف کی غیر روایتی سیاست کا انداز قوم میں کافی حد تک مقبول ہوا اس لئے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں نواز شریف مخالف طبقات گومگو کا شکار ہیں کیونکہ طاقتور طبقات اور ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والوں کو عوام میں چیلنج نواز شریف کر رہے ہیں جبکہ عوامی تاثر یہ ہے کہ نواز شریف مخالف جماعتیں کسی کے اشارے پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اہم نکتہ وہ ہے جس کا نواز شریف بار بار اظہار کر رہے ہیں اور وہ ہے جیل جانے کا اشارہ، اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو اصل امتحان ن لیگ کا بطور جماعت شروع ہو گا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اپنی پوری کوشش کر چکی مگر ن لیگ میں دراڑ پیدا نہیں ہو سکی۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ سیاسی اور انتخابی میدان کے کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ عوام میں نواز شریف ابھی تک اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ابھی تک مسلم لیگ کے متحد اور یکسو رہنے کے پیچھے اصل حقیقت تو نواز شریف کا متحرک رہنا ہے اور دوسری اہم بات اسلام آباد اور پنجاب میں قائم ان کی حکومت ہے ۔ اس جماعت کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا فیصلہ اگر ہوا تو اس کے لئے نواز شریف کی سیاسی میدان سے بے دخلی ضروری ہے جس پر نواز مخالف قوتیں سرجوڑ کر بیٹھی ہیں اور نواز شریف بھی اپنا اصل حریف ایسی قوتوں کو قرار دے رہے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔ نواز شریف اب عوام میں کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ پیپلزپارٹی یا آصف زرداری کے بجائے ان حریفوں سے ہے جنہوں نے نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ جن طبقات نے حکومت سے نکالا وہی طبقات ان کی پارٹی کو توڑنے کا کام بھی شروع کر چکے ہیں۔ مگر جنوبی پنجاب کے چند سیاسی خاندانوں کے علاوہ ابھی اس میں کامیابی کا دامن خالی ہے۔

تیسرا اہم سوال میاں نواز شریف کی ممکنہ سزا کی ٹائمنگ سے ہے اگر ملک کی احتساب عدالت نے انہیں مختلف الزامات کے تحت جیل بھیج دیا اور سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئیں کہ نواز شریف کو محض اقامہ نہیں بلکہ واقعتاً پاناما الزامات کے تحت سزا ہوئی ہے تو پھر انتخابی میدان میں کافی فرق پڑے گا۔ مگر اس مختصر وقت میں ن لیگ کو 2002 کی پوزیشن پر لانا کافی مشکل ہو گا کہ اس کے بغیر ملکی سیاست کو چلایا جائے 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کو ہرایا جا سکتا ہے مگر پاکستان کی سیاست سے نکالنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی اصل قیادت آج بھی نواز شریف کے پاس ہے اورجو عوامی اجتماعات ہیں جو سیاسی ابلاغ مریم نواز شریف اور ان کے والد کر رہے ہیں وہ ن لیگ کے کسی اور رہنما کے حصے میں نہیں آیا۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کا سربراہ کوئی بھی ہو اس پر اور عوام پر اصل سکہ صرف نواز شریف کا ہی چلتا ہے ۔ نواز شریف عوام میں ہوں یا جیل میں ن لیگ کو اب مزاحمت کے میدان میں آگے بڑھنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ذمہ داران اور اراکین اسمبلی مشکل حالات کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آنے والا وقت ان کے لئے اچھا نہیں مگر مستقبل میں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔