لاہور: (دنیا کامر ان خان کے ساتھ ) سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردی ہیں اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر ذمہ داری کا تعین کرے گی۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا تھا کہ 1990 کے الیکشن میں سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی پر الزام تھا کہ انہوں نے رقوم تقسیم کی تھیں اور آئی جے آئی بنائی تھی جس کے بعد آئی جے آئی نے الیکشن جیتا اور نواز شریف وزیر اعظم بنے ، مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے 6 سال بعد آئین سے غداری کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا لیکن کیا اب یہ مقدمہ درج کیا جائے گا یا نہیں؟۔ اس کیس کی شکایت کنندہ پیپلز پارٹی تھی اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک اس کے محرک تھے 2012 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تاہم پیپلز پارٹی نے بوجوہ چپ سادھ لی اور اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ جو اس کیس میں اصغر خان کے وکیل تھے نے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ " میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی آج بھی بڑی اہمیت ہے۔ ریویو پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 6 سال گزرنے کے باوجود اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے اس کیس میں نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں اگر ان کی بات مان لی جاتی تو پھر ہر فوجی افسر کو یہ دعوت عام تھی کہ وہ اپنے حلف سے روگردانی کرے سیاست میں ملوث ہو اور اپنے لئے انتخاب کرے کہ کون اچھا ہے اور کون برا اور اس کی سرپرستی کرے اور قابل گرفت بھی نہ ہو یہ دونوں شخصیات اس استدلال کا سہارا لینا چاہتی تھیں کہ وہ سابق صدر غلام اسحاق خان کے حکم کی پابند تھیں ہمیں بری الذمہ قرار دیا جائے، سپریم کورٹ نے اس کو یکسر رد کر دیا اور اب بات عملدرآمد کی طرف چلی گئی ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا یہ جمہوریت اور ایک پارٹی کے خلاف سازش تھی اور اس میں لوگوں کو علم تھا کہ وہ سازش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا اس کا بڑا کمزور رول رہا ہے پیپلز پارٹی خود عدالت بھی نہیں گئی تھی۔ اصغر خان وہ مواد لے کر سپریم کورٹ گئے تھے جو سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے 1996 میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا تھا لیکن جب 2012 میں فیصلہ آیا تو اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ،مستعدی سے یہ ممکن تھا کہ مقدمات قائم کئے جاتے اور تفتیش کو آگے بڑھایا جاتا لیکن پی پی حکومت کے دوران کچھ نہیں ہوا، اس کے بعد نگران حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا اور پھر مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے بھی اس حوالے سے خاموشی اختیار کر لی۔ سوال یہ ہے اب کیا کرنا ہے اس سلسلے میں جہاں تک اسلم بیگ اور اسد درانی کا تعلق ہے 2012 کے فیصلے میں وضاحت سے کہہ دیا گیا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ "کرپٹ پریکٹس" کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا کرپٹ پریکٹسز کا واضح مقدمہ بنتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر بھی فیصلے میں بات کی گئی ہے کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی بھی کی ہے اس حوالے سے آئندہ جو کارروائی ہوگی ان امور پر بھی غور ہوگا اگر کرپٹ پریکٹس کے حوالے سے ان کو سزا دے دی جائے تو اس سے آئندہ آنے والے افسروں کو بڑی تنبیہ ہوگی۔
معروف قانون دان نے بتایا کہ آرٹیکل 6 کے تحت بات سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے اگر سپریم کورٹ سمجھتی ہے تو بات اس طرف جا سکتی ہے لیکن آرٹیکل 6 کے تحت یہ فیصلہ حکومت ہی کرسکتی ہے کہ غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے یا نہیں۔ یہ فیصلہ حکومت وقت کے پاس آئے گا لیکن کرپٹ پریکٹسز کی حد تک ایف آئی اے کو براہ راست حکم دیا جا سکتا ہے کہ مقدمہ قائم کر کے سزا کی جانب بڑھا جائے۔