لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف کے متنازعہ انٹرویو کے قومی سیاست، سول ملٹری تعلقات، بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی کے معاملات اور دہشت گردی کے معاملے پر امریکہ کیساتھ تعلقات پر گہرے اثرات ہونگے مگر اندرونی سیاست خصوصاً ان کی پارٹی پر نواز شریف کی قائدانہ گرفت ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی جس کی سب سے بڑی مثال خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا طرز عمل ہے جو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پنجاب ہاؤس جا کر سابق وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
بعد ازاں انہوں نے کھل کر اپنے قائد نواز شریف کی حب الوطنی کا دفاع کیا اور اس انٹرویو کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے انٹرویو کے کچھ حصوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کرنے کی بات کی اور پھر قومی اسمبلی کے ایوان میں دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے وہ اپوزیشن پر برس پڑے اور انہوں نے اس بدلتے ہوئے خطرناک قومی مرض کی طرف اشارہ کیا جس میں حب الوطنی بارے من چاہے فیصلے دیئے جاتے ہیں اور غداری کے سرٹیفکیٹ کے رجحان پر سخت تنقید کی اور اس کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جس قومی کمیشن کی بات میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر کہی تھی وہی بات ان کے وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے فلور پر ببانگ دہل کہی۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی پہچان ایک معاملہ فہم اور معتدل شخصیت کی ہے مگر اپنی لیڈرشپ کی محبت میں وہ قومی اسمبلی کے فلور پر خاصے تلخ نظر آئے۔ جہاں تک پارٹی کے صدر شہباز شریف اور ان کی پوری جماعت کا تعلق ہے تو وہ بھی پوری طرح اس مشکل صورت حال میں اپنے قائد نواز شریف کی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ میاں شہباز شریف ان معاملات پر کم بولتے نظر آتے ہیں مگر جب وہ بولتے ہیں تو پورا تول کر بولتے ہیں وہ بھی اس معاملے پر انٹرویو کے متن کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں۔ البتہ پارٹی کے اندر اس امر پر سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے کہ اس معاملے کے اثرات آنیوالے انتخابات پر ضرور ہونگے جس سے بچنے یا نکلنے کیلئے ہنگامی حکمت عملی اور مشاورت کی ضرورت ہے۔
پارٹی کا ایک سنجیدہ عنصر یہ بھی کہتا نظر آ رہا ہے کہ حساس حالات میں ایسے کسی بیان کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پہلے ہی عالمی سطح اور خصوصاً ہمسایہ ممالک میں پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کردار کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، البتہ یہ عنصر اپنی جماعت، قیادت اور اپنی کمٹمنٹ پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتا جبکہ اراکین اسمبلی ضرور پریشان ہیں اور وہ ایک دوسرے سے یہ پوچھتے اور کہتے نظر آ رہے ہیں کہ لوگ نواز شریف کے اس متنازعہ بیان پر چلنے والے پراپیگنڈے کا اثر تو نہیں لیں گے لیکن ایک ایسا لیڈر جس نے بھارت کیخلاف ایٹمی دھماکے کئے ہوں ان کی جانب سے آنیوالے اس بیان سے پاکستانی عوام کے دل دکھے ضرور ہیں وہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ آئندہ حالات اور انتخابات ہونگے کہ وہ اس متنازعہ بیان پر اٹھنے والے طوفان کی کیفیت سے کیسے نکلے گی۔ دوسری جانب اپوزیشن اسے آنیوالے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ بنانے کی پلاننگ کئے ہوئے ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کے پاس مسلم لیگ ن کی حکومت کے مقابلہ میں اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بہت کچھ نہیں تھا اب اس پیدا شدہ نئی صورتحال میں نواز شریف کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ایک حساس نکتہ ہاتھ آ گیا ہے۔