لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی افغان) حکومت کا فاٹا کے پختو نخوا میں انضمام کے خلاف رد عمل براہ راست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، آخر افغانستان جیسے ملک کو پاکستان کی جانب سے اپنے اندر اٹھائے گئے اس اقدام پر اعتراض کیوں پیدا ہو رہا ہے جبکہ اس اقدام کے نتیجہ میں ڈیورنڈ لائن مضبوط ہو گی۔ اس کے ارد گرد دہشت گردی ، شدت پسندی کا خاتمہ یقینی بنے گا اور بارڈر کے ساتھ ان علاقوں میں گورننس بہتر ہو گی۔ قانون اور آئین کی سالمیت قائم ہو گی اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جوعلاقہ بفر زون تھا اور اب یہ ہر حوالے سے پاکستان کی جغرافیائی وحدت کا حصہ بنا ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان کی ریاست کی عملداری یہاں مستحکم ہو گی جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کی کمر ٹوٹے گی اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے میں مدد ملے گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ آخر پاکستان کے اندر ہونے والی اس اہم سیاسی پیش رفت پر افغانستان کا مسئلہ کیا ہے۔ علاقائی صورتحال میں افغانستان کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک ملک ہونے کے باوجود اپنی ایک علاقائی وحدت سے نا آشناہے ۔ وہاں کسی ایک حکومت نہیں، طاقت کے کئی متوازی مراکز اپنی اپنی حکومتیں چلارہے ہیں۔ ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ایسے میں پاکستان میں کوئی حکومت اپنی ریاستی عملداری کیلئے یکسو ہے اور اس کیلئے دور رس اقدامات اٹھا رہی ہے اور ان اقدامات سے اگر اگلے مرحلے میں خود افغانستان کی اندرونی صورتحال خصوصاً امن و امان میں بہتری آتی ہے تو پھر افغانستان کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں، یہ مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ کابل نہیں چاہتا کہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ علاقائی امن وامان میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکے۔ یہ دراصل خود افغان انتظامیہ کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر پاکستان اپنا گھر درست کررہاہے تو آخر خود افغانستان ایسا کیوں نہیں کر پاتا، ان کے اندر ایسی تحریک کیونکر پیدا نہیں ہوتی۔ افغانستان کے اندر پیدا شدہ صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان بھی افغانستان اور افغانوں کو ہوا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں افغان عوام دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں۔
امریکہ جو افغانستان پر اپنے تسلط کیلئے نیٹو افواج کی طاقت کو بروئے کار لانے میں سرگرم رہا لیکن 17 سال اس امر کے گواہ ہیں کہ طاقت اور قوت کے ذریعے افغانستان پر تسلط قائم نہیں کیا جا سکا اور خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے افغانستان دہشت گردی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا اور یہ پاکستان تھا جس نے مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیتے ہوئے ہر مرحلہ پر اس مؤقف کا اظہار کیا کہ افغانستان میں امن فریقین کے بیٹھ کر بات چیت کرنے سے آئے گا۔ بد قسمتی یہ رہی کہ افغان حکومتیں پاکستان کا صائب مشورہ قبول کرنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی میں مصروف ہیں اور خود ان کا اندرونی مسئلہ گھمبیر ہوتا گیا اور آج بھی صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت کی خود پورے افغانستان میں کوئی رٹ نہیں اور افغانستان کے بڑے علاقہ پر طالبان حکمران ہیں خود مرکزی شہر کابل نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود آئے روز دھماکوں سے لرزتا رہتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ خود افغان انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کتنی ہے ،افغان انتظامیہ الزام تراشی کے بجائے اپنے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔