لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت اور اپوزیشن میں نگران وزیر اعظم کے نام پر بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ اس پر فریقین میں اعتماد سازی کا بحران پایا جاتا ہے اور معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں ہی جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اب وہ وزیر اعظم سے نگران وزیر اعظم کی مشاورت کیلئے ملاقات نہیں کریں گے اور اب معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں ہی حل ہوگا۔ لیکن آج حکومت اور اپوزیشن نے نگران وزیر اعظم کیلئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک پر اتفاق کر کے اعلان کر دیا اور کہا کہ نگران وزیر اعظم کا فیصلہ باہمی مشاورت سے ہوا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جو ڈیڈ لاک تھا اس کو پس پردہ نواز شریف اور آصف زرداری نے توڑا اور خود فیصلہ کر کے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کو رسمی طور پر اعلان کرنے کیلئے آگے کر دیا۔ نگران وزیر اعظم ریٹائرڈ سپریم کورٹ جج اور سابق چیف جسٹس ہیں۔ اس طرح چیئرمین نیب اور الیکشن کمیشن کے سربراہ بھی سابق جج ہیں اس طرح طاقت کا تکون عدلیہ میں موجود سابق ججوں پر پڑ گیا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ یہ تکون ملک میں کس انداز میں شفاف انتخابات کو یقینی بنا کر سب کے اعتماد پر پورا اترتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے خود سے نگران وزیراعظم کا فیصلہ کر کے ثابت کیا ہے کہ سیاست دان باہمی اختلافات کے باوجود ملکر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ نگران وزیر اعظم کا حتمی فیصلہ نواز شریف اور زرداری نے ہی کرنا ہے اور باقیوں کی حیثیت محض مشاورت تک محدود ہوگی۔ یہ تاثر نہیں آنا چاہیے کہ ادارے یا نگران حکومت کسی ایک جماعت کی حمایت کر رہی ہے۔ اس سے نہ صرف انتخابات متاثر ہونگے بلکہ جمہوری عمل بھی کمزور ہوگا اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں جمہوریت سمیت ووٹ کی بنیاد پر سیاسی نظام قائم ہو اور یہ ہی عمل ملک کو جمہوریت کی طرف بڑھنے میں بھی مدد دے سکے گا۔