لاہور میں مسلمانوں کی آمد

Last Updated On 29 May,2018 09:45 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) آج کل لاہور میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ہندو، سکھ اور پارسی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ مسیحی مقابلتاً زیادہ ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 1000 عیسوی تک لاہور شہر صرف ہندوئوں کا شہر تھا۔ ان ہی دنوں شاہ حسین میراں زنجانیؒ اپنے مرشدحضرت ابو الفضل ختلیؒ کی خواہش و حکم پر لاہور تشریف لائے اور انہوں نے یہاں اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔

شاہ حسین میراں زنجانیؒ ایران کے شہر زنجان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی تعلیم گازرون میں حضرت ابو الفضل ختلیؒ سے حاصل کی۔ حضرت ابو الفضل ختلیؒ ملک شام کے رہنے والے تھے لیکن تبلیغ کی خاطر گازرون میں قیام پذیر تھے اور حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخشؒ کے بھی مرشد تھے۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ اپنے دو بھائیوں سید یعقوب زنجانیؒ اور سید موسیٰ زنجانیؒ کے ہمراہ تشریف لائے اور لاہور کے مشرق میں شہر اور دریائے راوی پر ایک پر سکون مقام پر قیام کیا۔

اس زمانے میں لاہور کے کنوئوں میں میٹھاپانی نہیں تھا۔ شہر کے لوگ پینے کے لئے پانی دریائے راوی سے لا کر استعمال کرتے تھے۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ جب لاہور تشریف لائے تو انہوں نے نہ صرف یہاں کی مقامی زبان سیکھی بلکہ لباس اور وضع قطع بھی مقامی لوگوں کی طرح اختیار کی۔ شروع کے دو تین سالوں میں آپ کی تبلیغ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ حالانکہ شہر کے تمام لوگ جب دریا سے پانی لینے جاتے تو آدھے راستے میں شاہ حسین میراں زنجانیؒ کے ڈیرے پر رک کر نہ صرف سستا لیتے بلکہ انہیں پینے کو پانی بھی مل جاتا تھا۔ شہر میں کوئی شخص کسی کو پانی پینے کے لئے بھی نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ پانی لانے کے لئے بہت مشقت کرنی پڑتی تھی۔

شاہ حسین میراں زنجانیؒ کبھی کسی کو پانی پینے سے نہیں روکتے تھے لیکن وہ خود بھی اس مشقت سے پریشان تھے۔ روایت کے مطابق ایک دن انہوں نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ کنواں کھودا جائے۔ سب نے کہا کہ کھارا پانی ہے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن آپؒ نے اللہ کا نام لے کر کنواں کھودنا شروع کیا۔ اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اس میں سے میٹھا پانی نکل آیا۔ اب شہر کے تمام لوگ یہاں سے پانی لے جانے لگے کیونکہ ان کی نہ صرف آدھی مسافت بچ گئی بلکہ صاف اور میٹھا پانی بھی ملنے لگا۔ کئی ہندوئوں نے اسے کرامت جانا اور بہت سے ہندو صرف اسی وجہ سے مسلمان ہوئے۔

یہ جگہ میراں دی کھوئی اور چاہ میراں کے نام سے مشہور ہو گئی اور آج تک اسی نام سے معروف ہے۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ اور ان کے بھائی لاہور میں آباد ہونے والے اولین مسلمانوں میں سے ہیں اور چاہ میراں مسلمانوں کا پہلا محلہ بنا۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ کا وصال 1041ء میں ہوا۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ کا جس دن وصال ہوا اسی دن داتا گنج بخشؒ لاہور تشریف لائے اور انہوں نے ہی شاہ حسین میراں زنجانیؒ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ گو موجودہ دور کے چند مؤرخ اس روایت سے اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ قدیم روایت حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے منقول ہے اس لئے زیادہ معتبر سمجھی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ شاہ حسین میراں زنجانیؒ اور داتا گنج بخشؒ کے جو مندرجہ ذیل شجرہ ہائے نسب دستیاب ہیں ان کے تقابلی جائزہ کے مطابق بھی دونوں ہمعصر ہی نظر آتے ہیں۔ شاہ حسین میراں زنجانیؒ کا لاہور میں قیام تقریباً 36-37 سال تک رہا اور لاہور شہر کی تاریخ لکھنے والے بیشتر مؤرخین نے شاہ حسین میراں زنجانیؒ کے وصال اور لاہور میں داتا گنج بخشؒ کی آمد کا سال 431 ہجری ہی تحریر کیا ہے۔

تحریر: امتیاز حسین سبزواری