لاہور: ( روزنامہ دنیا) پاکستان میں عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف منفی پراپیگنڈا میں اضافہ ہوگیا جس میں اخلاقی حدود پامال کی جارہی ہیں۔ مخالف امیدوار کے نجی معاملات، خواتین پر کیچڑ اچھالنے اور بہتان لگانے کا عمل تیز کردیا گیا۔ سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کر رہی ہیں۔ اِس وقت سوشل میڈیا نے ساری دنیا کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ مگر سیاست میں اس کے مثبت سمیت منفی اثرات بھی ہیں۔
سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو اپنی پارٹی کی مقبولیت بڑھانے اور اپنے مخالفین کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا پر انتشار برپا ہو جاتا ہے جو بیرونی سطح پر ملک کے سیاسی حالات کا منفی امیج پیش کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے خودنمائی کیلئے میڈیا سیل قائم کئے ہوئے ہیں جو ان کی مثبت سرگرمیوں کو سوشل میڈیا صارفین میں پروموٹ کرتے ہیں جبکہ یہی میڈیا سیل اور امیدواروں کے حامی جعلی اکاؤنٹس بھی بناتے ہیں۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مجموعی تعداد 44 ملین سے زائد ہوگئی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا نے گزشتہ سالوں میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں تحریک انصاف سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے فعال نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام چھوٹی و بڑی جماعتیں، مذہبی و سیاسی شخصیات انفرادی و اجتماعی طور پر سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اصل مسئلہ جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار ہے جس کی روک تھام کے لئے کوئی عملی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
فیس بک کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ملین سے زائد مشتبہ اکاؤنٹس ہیں۔ فیس بک کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اعدادو شمار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے لیے بہترین ٹیم ہائر کی۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا ٹیم کے لئے 44 ملین ڈالر جبکہ ہیلری کلنٹن نے 28 ملین ڈالر خرچ کئے۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو الیکشن کی مشکلات سے بچنے کے لیے دورانِ الیکشن سوشل میڈیا کو مکمل طو ر پر بین کر دیتے ہیں۔