لاہور: (تجزیہ: امتیاز گل ) ٹرمپ کی ٹیرف لڑائی سے بے پرواہ بیجنگ پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پرعزم اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت رابطے بڑھا کر مشترکہ ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
منصوبے پر مغربی شکوک وشبہات کے باوجود چینی قیادت محتاط رہتے ہوئے اپنے گردونواح کے پیچیدہ ماحول میں بتدریج سفارتی طور پر داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے، ساتھ ہی چین تنازعات کم کرنے کیلئے کثیر جہتی پروگراموں کے ذریعے تعاون بھی کر رہا ہے۔ حال ہی میں بیجنگ میں غیر سرکاری سہ فریقی افغان، پاکستان چین انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ اسی چینی عزم کا عکاس ہے۔ اس ڈائیلاگ کے میزبان چائنا ایسوسی ایشن آف فرینڈشپ کے صدر چن ژیمین نے پاکستانی اور افغان دوستوں کو بتایا کہ دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرحد پار نقل و حرکت، ان کی تکنیکی صلاحیتیں ایک بڑا خطرہ ہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے مربوط علاقائی پالیسی کی ضرورت ہے۔ مختلف دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ گروپوں کا گٹھ جوڑ توڑنے کا واحد راستہ یہی ہے۔
ڈائیلاگ میں وزارت خارجہ کی نمائندگی دو سینئر افسروں نے کی۔ چینی حکام نے ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار کے خلاف پاکستانی کامیابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے بالواسطہ مشورے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں نظریاتی انتہا پسندی کے مسئلے کا ابھی تک مناسب سدباب نہیں کیا گیا۔ انہوں نے تھنک ٹینکس کے مشترکہ ریسرچ پروگراموں کی تجویز بھی دی تاکہ انتہاپسند اور دہشت گرد گروپوں کے مسئلے کا بہتر ادراک کیا جا سکے۔ چن ژیمین نے افغان امن عمل اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اس کی اہمیت پر چینی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ امن بات چیت کی قیادت خود افغانوں کو کرنی چاہیے تاکہ داخلی اختلافات دور ہو سکیں۔ چین ان کوششوں کی حمایت کریگا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گرد کون ہے، اس کی تعریف واضح کرنے اور دہشت گردی گروپوں کی ٹھوس نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے خلاف اجتماعی اور موثر اقدامات ترتیب دیئے جائیں۔
اپنی وزارت کے نمائندہ چینی حکام نے پاکستانی اور افغانی حکام دونوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اور خطے کو لاحق خطرات کی نوعیت پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ ڈائیلاگ میں شریک چینی حکام اور دانشوروں نے اتفاق رائے سے تحقیق کی ضرورت پر زور دیا کہ داعش سیاسی طاقت چاہتی ہے، یا پھر عدم استحکام کی آلہ کار ہے۔ واضح تفریق ہونی چاہیے کہ وہ مذہبی /حریت پسند جنگجو ہیں یا محض دہشت گردی کے مختلف چہرے ہیں۔ اس معاملے پر امریکہ اور اس کے علاقائی حریفوں چین اور روس کے علاوہ ایران اور پاکستان بھی منقسم ہیں۔
روسی وزرا کھلے عام امریکی سی آئی اے کو افغانستان میں داعش کا سرپرست قرار دیتے ہیں۔ چین شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے پلیٹ فارم پر ماسکو کے موقف کی بالواسطہ توثیق کر چکا ہے۔ امریکہ یہ الزام سختی سے مسترد کر چکا ہے، 8 اگست کو سینٹکام کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران داعش کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے مکمل طور پر مٹا دینا چاہیے۔ داعش کے خلاف امریکہ اور افغان پارٹنرز کی جنگ جاری ہے، ‘‘ہم نے رواں سال داعش کے کئی جنگجو ہلاک کئے، القاعدہ جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح داعش کے خلاف بھی ہمارے آپریشن جاری ہیں، عیدالفطر پر طالبان اور افغان حکومت کے مابین جنگ بندی کے دوران بھی داعش کے خلاف کارروائی جاری رہی ’’۔
جنرل ووٹل کا بیان حالیہ کارروائیوں کے حوالے سے تھا۔ افغان صوبے جوزجان میں داعش کے 150 جنگجوؤں نے ہتھیار ڈالے، انہیں طالبان نے اپنے ٹھکانے خالی کر نے پر مجبور کر دیا تھا۔ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے ان کیلئے عام معافی کی بات کی ہے، مگر امریکہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے خلاف کم از کم جنگی جرائم کے مقدمات چلنے چاہئیں۔
ماسکو ، بیجنگ، تہران اور پاکستان جنرل ووٹل کی داعش سے متعلق یقین دہانیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں تشدد اور انسداد دہشت گردی کے درمیان تعلق پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ اس کی وجہ سے ایغور چینی تنظیم ای ٹی آئی ایم سے متعلق چین کے خدشات ہیں۔ چین کی نظر میں ایسے گروپ جو حملوں کیلئے دوسرے ملکوں کی سرزمین استعمال کرتے ہیں، اس سے متعلق انٹیلی جنس تعاون بڑھائے بغیر ان کے مالیاتی اور نئی بھرتیوں کے نیٹ ورکس اور جرائم پیشہ گروپوں کیساتھ ان کے رابطوں کو توڑنا بہت مشکل ہو گا۔
اس سلسلے میں حکام کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ چین انڈرگراؤنڈ مالیاتی نیٹ ورکس کے خلاف ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہے جو کہ دہشت گرد گروپوں کے مالی وسائل کا ذریعہ ہے۔ لگتا ہے کہ چین خاموشی مگر تندہی سے دہشت گردی کے مسئلے پر تینوں ہمسایوں پاکستان، بھارت اور افغانستان کیساتھ رابطوں کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے، اسے یقین ہے کہ تینوں ملکوں کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن اور دہشت گردی کے خلاف فتح خواب ہی رہے گی اور دہشت گردی کے شکار غیر مستحکم افغانستان کے تاریک سائے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر بھی پڑتے رہیں گے، اسی خدشے کی پیش بندی کیلئے بیجنگ تمام علاقائی فریقین سے بڑھ چڑھ کا تعاون کرنا چاہتا ہے۔