پاکستان اور امریکہ کہاں کھڑے ییں؟

Last Updated On 04 September,2018 09:57 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان اور امریکہ کے درمیان مورچہ بندی پہلے کبھی اتنی واضح نہیں رہی، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور جنرل جوزف ڈنفورڈ کے اسلام آباد پہنچنے سے چند دن قبل ہی امریکی انتظامیہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 30 کروڑ ڈالر منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔

پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل فولکنر کے مطابق ’’یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے جنوبی ایشیا پالیسی کی سپورٹ میں ٹھوس اقدامات نہ اٹھانے کے باعث کیا گیا، 30 کروڑ ڈالر کسی اور پروگرام پر خرچ ہونگے‘‘۔ اس اعلان سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں روکی گئی رقم 80 کروڑ ڈالر ہو گئی ہے۔ یہ چھٹی بڑی چوٹ ہے، جو کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو پہنچائی، اگرچہ یہ غیر متوقع نہیں ہے۔

اپنے نئے سال کے ٹویٹ میں انہوں نے امداد کے بدلے ماضی میں پاکستان پر ’’جھوٹ اور دھوکہ دینے‘‘ کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد 50 کروڑ ڈالر کا کولیشن سپورٹ فنڈ روک لیا گیا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فریم ورک کی عدم پاسداری پر گرے لسٹ میں شامل کرنے کی مہم کی قیادت واضح طور پر امریکہ اور بھارت کر رہے ہیں، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا فروری میں پیرس میں ہونیوالا اجلاس دوسرا موقع تھا کہ پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش ہوئی۔

تیسرا اقدام 30جولائی کو اٹھایاگیا جب امریکہ میں پاکستانی فوجی افسروں کے تربیتی اور تعلیمی پروگرام بند کر دیئے گئے جو کہ اگست کے اوائل میں شروع ہونا تھے۔ یہ اقدام پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کے چند روز بعد اٹھایا گیا۔ اسی دوران پومپیو نے خبردار کیا کہ نئی حکومت کیلئے آئی ایم ایف کا متوقع بیل آؤٹ پیکیج چینی قرضوں کی ادائیگی کیلئے نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’’ہم آئی ایم ایف پر نظر رکھیں گے۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ امریکی ڈالر جوکہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کا حصہ ہیں، چینی بانڈ ہولڈروں یا چین کو ادائیگی کیلئے استعمال ہوں‘‘۔ یہ بیان اس امر کو بھی ظاہر کرتا تھا کہ چین کیساتھ بڑھتی معاشی وسٹریٹجک قربت کی وجہ سے امریکہ پاکستان کو دبانا چاہتا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کیلئے روس یا چین کا کوئی بھی اقدام مسترد کر دیتے ہیں۔ بیجنگ اور ماسکو کے برعکس واشنگٹن افغانستان میں جاری شورش کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے۔ دوطرفہ تعلقات کے بگاڑ کی پانچویں مثال وزیراعظم عمران خان کو پومپیو کا مبارکباد کا فون تھا۔ یہ فون کال خوشگوار بات چیت کے بجائے ایک سفارتی تنازع میں بدل گئی، کیونکہ دونوں طرف سے اس گفتگو کے بارے میں متضاد بیانات جاری ہوئے۔

امریکی دفتر خارجہ نے کہا کہ پومپیو نے گفتگو کے دوران سرحد پار سے کارروائیاں کرنیوالے ’’دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی‘‘ کا معاملہ اٹھایا۔ پاکستانی بیان کے مطابق ’’گفتگو کے دوران سرحد پار کارروائیاں کرنیوالے دہشت گردوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا، اور یہ کہ امریکی حکام اپنے بیان کی فوری درستگی کریں‘‘۔

امریکہ کا چھٹا اقدام 67سالہ افغان نژاد ریپبلکن زلمے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کرنا ہے۔ خلیل زاد پاکستان سے نفرت کی وجہ سے معروف اور اپنے آرٹیکلز، میڈیا کو انٹرویوز ،سیاسی سوانح حیات اور اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں پاکستان پر کھل کر الزامات عائد کرتے آئے ہیں۔ ان کی دوبارہ تقرری سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں، جیسے کہ واشنگٹن کا فوکس امن عمل اور پاکستان سے رابطے میں رہنا ہے یا وہ محض سٹیٹس کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ واشنگٹن کے سٹمسن سینٹر تھنک ٹینک کے جنوبی ایشیا پروگرام کے معاون ڈائریکٹر سمیر لالوانی کے مطابق یہ تمام اشارے پاکستان پر بتدریج دباؤ بڑھانے کا اظہار کرتے ہیں۔

امریکی مطالبات کی بنیاد یہ گمان ہے کہ افغان طالبان اور مقبوضہ کشمیر میں سرگرم جنگجوؤں کی ڈوریاں پاکستان ہی ہلاتا ہے۔ افغانستان میں امریکی و نیٹو فورس کے سابق کمانڈر جنرل جان ایلن کا نقطہ نظر امریکی انتظامیہ سے قطعی مختلف ہے۔ مئی میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایک عرصہ تک وہ سمجھتے رہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ اسلام آباد اور راولپنڈی سے گزرتا ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے طویل المدت استحکام کا راستہ صرف اسلام آباد اور راولپنڈی سے نہیں، کابل سے بھی گزرتا ہے۔ اسلئے پاکستانیوں، افغانیوں اور عالمی برادری کو یکساں نقطہ نظر تک پہنچنے کی ضرورت ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ، جوکہ انتظامی استحکام کے علاوہ اپنے شہریوں کو تحفظ اور ایک فعال معیشت دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ صرف افغانستان کیلئے ہی اہم نہیں، بلکہ پاکستان کے طویل المدت استحکام کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔

جنرل جان ایلن جوکہ اس وقت بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے صدر ہیں، انہوں نے ایک اور سہ رخی خطرے کی نشاندہی کی جس کا افغانستان کو سامنا ہے، یعنی جرائم ، کرپشن اور بغاوت کا ناقابل حل گٹھ جوڑ۔ ان کی نظر میں اسی سہ رخی خطرے کا افغانستان کے مستقبل کو سامنا ہے، جسے فوجی زبان میں نظریاتی بغاوت، نرم زبان میں طالبان کہہ دیاجاتا ہے۔ منشیات کی تجارت ہی تھی جس نے باغیوں کی ایک دہشت ناک قسم اور مجرمانہ رویہ پروان چڑھایا اور جس کی سرپرستی کا فعال مجرمانہ نیٹ ورک بھی موجود تھا۔ ’’مجھے یقین نہیں کہ اس سے نمٹنے کی ہم نے مناسب تیاری کی ہوئی ہے‘‘۔
 

Advertisement