لاہور: ( روزنامہ دنیا) کھربوں کی عالیشان سرکاری رہائشگاہیں و بنگلے رکھنے کا معاملہ، پنجاب کے 7 کمشنرز، 27 ڈپٹی کمشنرز سمیت کئی سینئر بیورکریٹس اور پولیس افسروں سمیت 74 افسر ایسے ہیں جو بیک وقت 2، 2 عالیشان اور وسیع بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں تو بعض افسر پنجاب سے دیگرصوبوں میں تبدیل ہوکر جاچکے ہیں، ان کے پاس سرکاری گھر تو ایک ہے لیکن پنجاب میں انکے پاس کوئی عہدہ بھی نہیں ہے، اس کے باوجود سرکاری رہائشگاہ کے مکین ہیں، جس سے سالانہ تقریبا 1 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد سرکاری خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ ایک سرکاری رہائشگاہ جی او آر اور دیگر جگہوں پر موجود سرکاری رہائشگاہوں میں جبکہ دوسری سرکاری رہائشگاہ فیلڈ میں جہاں پر متعلقہ افسر تعینات ہیں۔
یہ سرکاری رہائشگاہیں اس لئے چشم کشاہ ہیں کہ حکومت عام آدمی کو گھر فراہم کرنے کے لئے منصوبہ بندیوں میں مشغول ہے، افسر شاہی کی شاہانہ طرز زندگی کی بابت یہ چشم کشا حقائق اس وقت منظر عام پر آرہے ہیں جب نئی برسراقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے عام شہریوں کو چھت فراہم کرنے کے لئے 5 ہزار گھر تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عام اور سادہ طرز زندگی اپنانے پرزور دیا ہے اور بڑی بڑی سرکاری رہائشگاہوں کو نیلام کرنے کی تجویز بھی سامنے آرہی ہیں، کیونکہ ان کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال پر جہاں اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں وہاں ان کی بچت بھی ممکن ہو پائیگی۔
ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ڈپٹی کمشنر قصور رانا محمد ارشد، ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ محمد اظہر حیات، ڈپٹی کمشنر اوکاڑا رضوان نذیر، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ، ڈپٹی کمشنر گجرات، ڈپٹی کمشنر نارووال، ڈپٹی کمشنر حافظہ آباد، ڈپٹی کمشنر جہلم، ڈپٹی کمشنر اٹک، ڈپٹی کمشنر سرگودھا، ڈپٹی کمشنر خوشاب، ڈپٹی کمشنر زاہد اقبال اعوان، ڈپٹی کمشنر فیصل آبادو دیگر کے پاس دو، دو رہائش گاہیں ہیں۔ ان ڈپٹی کمشنرز کے پاس اس وقت لاہور میں بھی سرکاری رہائشگاہیں موجود ہیں، اسی طرح کمشنر گوجرانوالہ، کمشنر بہاولپور، کمشنر ملتان، کمشنر ڈیرہ غازیخان، کمشنر ساہیوال ، آر پی او ساہیوال، آر پی او گوجرانوالہ سمیت ڈی پی اوز بھی شامل ہیں۔ پنجاب میں کچھ افسر ایسے بھی ہیں جو اسسٹنٹ کمشنرز،ایڈیشنل کمشنر ریونیو تعینات ہیں جنہوں نے سرکاری رہائشگاہ لے رکھیں ہیں، ایک لاہور میں اور دوسری جہاں پر وہ تعینات ہیں وہ بھی رہائش استعمال کر رہے ہیں۔
پنجاب میں بیورو کریسی نے اس طرح کی پالیسی منظور کروا رکھی ہے کہ اگر کوئی افسر پنجاب سے تبدیل بھی ہو جائے تو وہ 2 سال تک یہ سرکاری رہائشگاہ اپنے استعمال میں رکھ سکتا ہے، جبکہ کئی افسر جن کو وفاق میں یا کسی دوسری جگہ تعینات بھی کر دیا جاتا ہے تو وہ دو سال کا وقت پورا ہونے سے قبل ہی کچھ ہفتوں کے لئے لاہور میں آتے ہیں اور پھر دو سال بڑھا کر دیگر جگہوں پر تعینات ہو جاتے ہیں، بیوروکریٹس نے اپنی سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ پالیسی منظور تو کروائی جس سے سرکاری خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس وقت پنجاب میں کئی افسر سرکاری رہائشگاہوں میں مقیم ہیں لیکن وہ اس وقت پنجاب میں تعینات ہی نہیں ہیں، کئی افسران کے کئی ماہ قبل تبادلے ہو چکے ہیں، لیکن ان کے پاس سرکاری رہائشگاہیں موجود ہیں۔ جن میں نجم شاہ، علی جان، عرفان علی، ڈاکٹر عبدالجبار شاہین ،جہانزیب خان ، مشتاق احمد سیال،عمر رسول ، اسلم کمبوہ، فرحان عزیز خواجہ، ڈاکٹر احمد بلال، ندیم اسلم چوہدری ، احمد جاوید قاضی ، نبیل اعوان ، حسن اختر خان، سمیر احمد سید، ارقم طارق سمیت دیگر ہیں جو اس وقت پنجاب میں بھی تعینات نہیں۔
ابھی چند روز قبل اسد اسلام ماہنی ،اسد اللہ ،ہارون رفیق، علی بہادر قاضی بھی وفاق میں جاچکے ہیں، لیکن ان کے پاس پنجاب میں گھر موجود ہیں۔ میجر (ر) اعظم سلیمان کے پاس بھی سرکاری رہائشگاہ لاہور میں ہے، جبکہ یہ چیف سیکرٹری سندھ تعینات ہوئے تھے تو اس وقت بھی ان کو چیف سیکرٹری سندھ ہائوس دیا گیا تھا، اسی طرح حکومتی پالیسیاں ہی کچھ ایسی ہیں جس سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایس اینڈ جی اے ڈی ویلفیئر ونگ حکام کا کہنا ہے کہ جو پالیسی بنائی گئی ہے اس میں بہت سارے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے، پالیسی کے مطابق ہی سرکاری افسروں کو رہائشگاہیں دی گئیں ہیں، اس حوالے سے ڈیٹا دوبارہ سے ا کٹھا کیا جارہا ہے۔
رپورٹ: محمد حسن رضا