لاہور: (روزنامہ دنیا) جعلی اور بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ پر بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو حکومت سندھ کے گزشتہ 10 سال کے ریکارڈ ملنے میں رکاوٹوں کے باعث پریشانی کا سامنا ہے، اربوں روپے کی ٹرانزیکشن پر تفتیش کو پھیلانے کے باعث جے آئی ٹی کی معاونت کرنے والے ایف آئی اے افسران ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگے۔ بعض افسران کی رائے ہے کہ تفتیش کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا اتنا ہی پریشانی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے سندھ زون کی تاریخ میں بڑے مقدمات کی فہرست میں شامل جعلی اور بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی ٹرانزیکشن پر درج ایف آئی اے سٹیٹ بینک سرکل میں مقدمہ الزام نمبر 04/18 کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں قائم ایف آئی اے کے دفتر میں اپنا سیکرٹریٹ قائم کر رکھا ہے، جہاں ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، انسپکٹرز، سب انسپکٹرز اور دیگر افسران جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی معاونت میں مصروف ہیں، اس تحقیقات میں حکومت سندھ سے گزشتہ 10 سال کے ریکارڈ طلب کرنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم نے چیف سیکرٹری سندھ کو متعدد نوٹس جاری کیے، تاہم ہر نوٹس پر ریکارڈ فراہمی کے بجائے تاخیری حربے استعمال ہونے لگے ہیں۔
دوسری جانب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی ہدایت پر بھاری رقوم کے حامل کم آمد ن والے کھاتے داروں کو نوٹسز جاری کرنا شروع کر دیئے گئے ہیں اور کھاتے دار سے بھاری ٹرانزیکشن پر تفتیشی افسر ان یہی سوال کرتے ہیں کہ یہ بینک اکاؤنٹ آپ کا ہے یا نہیں یا کسی کو کبھی اپنا شناختی کارڈ استعمال کے لیے دیا اور اس اکاؤنٹ کے بارے میں معلومات فراہم کریں جو آپ خود استعمال کرتے ہیں ؟۔ اسی طرح کے سوالات پر تفتیشی افسر بینک کاریکارڈ چیک کرتا ہے اور ان دستاویزات کی فرانزک جانچ کے لیے سائبر کرائم کے حکام کو دے دیا جاتا ہے، جس کی رپورٹ کا تاحال انتظار کیا جا رہا ہے، ان دستاویزات اور فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ملوث بینک برانچز اور ان کے افسران کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے جائیں گے اور مستقبل میں ان درج مقدمات کی تعداد 30 سے زائد بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ ایف آئی اے نے تحقیقاتی ٹیم کو 30 ایسے افراد کی رپورٹ فراہم کی ہوئی ہے جن کے نام اور اکاؤنٹ نمبر سے بھاری ٹرانزیکشن ہوئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان کم آمدن والے اکاؤنٹس سے اربوں کی ٹرانزیکشنز 2015 ء میں ہی سامنے آگئی تھیں اور اب ان اکاؤنٹس کا مزید سراغ لگانا بھی ضروری ہے، ان کھاتوں سے اداروں کی اصلاح ممکن ہے لیکن رقم کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ان اکاؤنٹس کو سامنے رکھ کر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تجاویز بھی دے سکتی ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے کھاتوں سے رقوم کی منتقلی روکی جا سکے، جب کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو اپنی کارروائی کو لوٹی گئی رقم کی بیرون ملک منتقلی پر فوکس کرنا پڑے گا۔ براہ راست ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی تو ممکن ہے کہ کچھ رقم قومی خزانے میں جمع ہوجائے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس تفتیش میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی معاونت کرنے والے ایف آئی اے افسران پر موبائل فونز استعمال کرنے کے ساتھ اس تفتیش سے متعلق اپنے دیگر افسران سے گفتگو پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے، جس کے باعث مذکورہ افسران ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں، اس لیے بعض افسران کی رائے یہ ہے کہ تفتیش کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا اتنا ہی پریشانی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کی واضح مثال ایف آئی اے کے ٹڈاپ سکینڈل میں کی جانے والی تحقیقات ہیں جس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،مخدوم امین فہیم کے ساتھ دیگر اہم شخصیات کے نام سامنے آئے تھے اور اس تفتیش میں 91 مقدمات تاحال ایف آئی اے سندھ میں درج ہو چکے ہیں لیکن بااثر شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
واضح رہے کہ جعلی اور بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں نجی بینک (سمٹ) کے سابق سربراہ حسین لوائی، بینکر طہٰ رضا، اومنی گروپ کے سربراہ انورمجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو ایف آئی اے حکام گرفتار کر چکے ہیں، جو اس وقت بھی ملیر جیل میں موجود ہیں اور اس مقدمے میں ملزمان کی فہرست میں بعض دیگر اہم شخصیات بھی موجود ہیں جن کی گرفتاری کے لیے تاحال کوششیں نہیں کی گئی ہیں، جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور دونوں عدالت سے ضمانت قبل ازوقت گرفتاری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اپنی پہلی رپورٹ میں 334 افراد کے نئے نام ظاہر کیے اور اومنی گروپ کے ایک اکاؤنٹس افسر عارف خان سمیت دیگر افسران کو بھی زیادہ قصور وار قرار دیا ہے۔
تحریر: نادر خان