اسلام آباد: (دنیا نیوز) اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں تلف کرنے کو تیار نہیں، پاکستان کو ایک سال کیلئے معشوق بنالیں، ملک تحفے میں نہیں، جدوجہد کے بعد ملا، چیف جسٹس کا اسلام آباد میں بین الاقوامی سمپوزیم سے خطاب۔
آبی مسئلے پر اسلام آباد میں بین الاقوامی سمپوزیم کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عوام کو علم ہونا چاہیے کہ ان کے حقوق کیا ہیں ، میرے ملک کے کسی شہری کو ہمیشہ کیلئے غریب نہیں رہنا، ہمیشہ اپنے لوگوں کو بنیادی حقوق دلانے کی کوشش کرونگا۔ عام انسان کو اس کے حقوق بھی تو کوئی بتائے، آئین پاکستان کے تحت دئیےگئے حقوق بہت مقدس ہیں،ملک کے آئین سے مجھے بہت پیار ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہ پانی کے مسئلے کی طرف توجہ نہ دے کرظلم کیا گیا، زندگی پانی سے جڑی ہے، 40 سال تک پانی کے مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی گئی،قوم کو جواب چاہیے، ہمیشہ بنیادی حقوق کے تحفظ کی کوشش کی، میں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں تلف کرنے کو تیار نہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس وافر پانی نہیں ہے، پتا تھا کہ پانی کم ہو رہا ہے پھر بھی کسی نے کچھ نہیں کیا، ہم پانی ضائع کرتے رہے، کبھی اس طرف توجہ نہیں دی گئی، پانی کسی سائنسی فارمولے سے نہیں بنے گا، بین الاقوامی آبی ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان آبی قلت کا شکار ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں مجھے ایسا پانی دکھایا گیا جس میں فضلہ ملا ہوا تھا، 7 سو ایسی جگہیں تھیں جہاں پانی میں فضلہ شامل تھا، جتنے دن میں ہوں اپنی قوم کو مایوس نہیں کروں گا، آیئے ایک سال کیلئے پاکستان کو معشوق بنا لیں، جب پاکستان سے عشق ہو گا تو اس کے حق میں ہر کام کریں گے، قائداعظم کے عشق کی وجہ سے پاکستان بنا، قوم کا پیسہ میرے اور آپ کے پاس امانت ہے، امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سمپوزیم میں حکومتی نمائندوں کو بلایا تھا، انہیں یہاں سے نوٹس لے کر جانا چاہئے تھا، آج کا دن ہمارے لئے بہت اہم ہے، کانفرنس سے بہت کچھ حاصل کیا، اسے ضائع نہیں ہونے دینگے۔ اس سفر کا آغاز ہم نے کراچی سے شروع کیا تھا، کسی کو کک بیکس نہیں لینے دوں گا۔
اس سے قبل جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پانی اب نہیں تو کبھی نہیں جیسا ایشو بن چکا ہے، انہوں نے جنگی بنیادوں پر پانی کے مسئلے کا حل ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا پیغام ہے، قوم مایوس نہ ہو۔
سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ آبی مسئلے پر صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، وفاقی سطح پر انڈس واٹر اتھارٹی کے قیام پر توجہ دینی چاہیے، صوبائی سطح پر مضبوط واٹر اتھارٹیز بنانی چاہئیں۔ اتفاق رائے کے بغیر ملک میں ادارہ جاتی اصلاحات ممکن نہیں۔
سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر اگر چیف جسٹس آف پاکستان کام کر سکتے ہیں، تو دوسروں کو بھی آگے آنا چاہیے، سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کہتے ہیں منگلا، تربیلا اور غازی بروتھا آج بھی ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔