لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان میں ان دنوں سب سے بڑے جرم کی تحقیقات چل رہی ہیں، یہ منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تحقیقات ہیں، مگر خطے کی نہیں۔
یہ تحقیقات اس صوابدیدی اختیار کی واضح تشریح ہیں کہ بااثر سیاستدانوں اور بینکرز کے گٹھ جوڑ نے سرکاری فنڈز ہڑپ کرنے اور کک بیکس کی لانڈرنگ کیلئے انتہائی بے باک رابطہ اختیار کیا۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی خامیوں کی وجہ سے سسٹم کھل کر بے نقاب ہو رہا ہے۔ اربوں روپے کے ٹرانزیکشنز کرنے والے نئے نئے جعلی اکاؤنٹس روزانہ سامنے آ رہے ہیں، 39اکاؤنٹس جن سے 50ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، تحقیقاتی ٹیم ان کی جانچ پڑتال کر رہی ہے جوکہ ایف بی آر، سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک ، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سمیت مختلف سرکاری اداروں کے ارکان پر مشتمل ہے۔
ہر روز اکاؤنٹس کی ٹریل، ان کے مالکان کی چھان بین ہوتی ہے اور کئی گھنٹے متعلقہ بینک حکام سے رابطے میں رہ کر جرم کی نوعیت کی نشاندہی یا تحقیق کی جاتی ہے، جیسے کہ چند بینکوں سے اربوں روپے کی غیر متوقع کیش ٹرانزیکشن اور مشکوک ٹرانزیکشن کے ذرائع معلوم کئے جاتے ہیں۔ ان میں سرفہرست سمٹ بینک، دی سندھ بینک اور چند دیگر نجی بینک ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کی مدد سے کئے گئے اس جرم کے مجرموں تک پہنچنا ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔ یہ ان گدھوں کو بے نقاب کرنے جیسا ہے جوکہ فریب کاری کے ذریعے قیمتی سرکاری فنڈز کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔
حکام نے کام کا آغاز 29 اکاؤنٹس کی نشاندہی سے شروع کیا، جن میں سے بیشتر ایک ہی بینک کے تھے پھر انہوں نے مزید 2 درجن سے زائدمشکوک یا جعلی اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جن کے ذریعے بھاری رقوم منتقل کی گئی تھیں، اکثر کروڑوں کی رقوم محض فون کال پر منتقل ہوئی تھیں۔ ان میں کئی اکاؤنٹس صرف اومنی گروپ سے وابستہ کمپنیوں یا افراد کے تھے اور وہ 100کے مارک کو پہلے سے پار کر چکے تھے۔ جن افراد سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے ان کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے۔
فرانزک کے ذریعے حکام ان تمام اکاؤنٹس کے جعلی ہونے کا تعین کر چکے ہیں، یعنی یہ اکاؤنٹس غریب لوگوں کے نام پر کھولے گئے، یا پھر اکاؤنٹ ہولڈر اس وقت دنیا میں نہیں۔ اب تک ہونیوالے انکشافات حیران کن ہیں، سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق جن آڈیٹرز نے دسمبر تک کام مکمل کرنا ہے ، انہوں نے قواعد و ضوابط میں کئی سنگین خامیوں کی نشاندہی کی ہے جن کا مخصوص مفادات کے حامل افراد نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
ان انکشافات کی وجہ سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں:
1) اس تمام عرصے میں سٹیٹ بینک کا قانونی طور پر خودمختار ادارہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کیا کر تا رہا ہے ؟
2) کیا حقائق ایف ایم یو کے علم میں تھے؟ اگر یہ خودمختار ادارہ ہے تو اس کے ڈی جی کی تقرری وزیر خزانہ کیوں کرتا ہے؟
3) کیا نجی بینک سٹیٹ بینک کے ریگولیشنز پر عمل کرتے ہوئے 2کروڑ سے زائد کی ٹرانزیکشن کی رپورٹ ایف ایم یو کو کرنے کے قانونی طور پر پابند ہیں؟
4) اگر رپورٹ نہیں کی جاتی تو کیا ایسی ٹرانزیکشنز ایف ایم یو کے ریڈار پر ظاہر ہوتی ہیں؟
5) اگر ایف ایم یو غیر متوقع ٹرانزیکشنز کا سراغ اور سٹیٹ بینک کو ان کے رپورٹ نہیں کرتا تو اس کا کیافائدہ ہے؟
6) کیا عدم تعمیل پر متعلقہ بینکوں کے منیجرز پر کوئی الزامات عائد ہونگے اور کیا ان سے پوچھ گچھ ہو گی کہ انہوں نے بڑے پیمانے کی کیش ٹرانزیکشنز کی ایف ایم یو کو رپورٹ کیوں نہ کی؟ جبکہ وہ صارفین کی اکثریت کو ریگولیشنر کی تعمیل کے نام سخت پریشان کرتے ہیں۔
7) ایف ایم یو نے ان بینکوں کے خلاف کارروائی شروع کیوں نہیں کی جنہوں نے قانونی تقاضوں سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر کیش ٹرانزیکشنز ہونے دیں۔
8) جبکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کئی اکاونٹس متعلقہ اکاؤنٹ ہولڈر کی عدم موجودگی میں کھولے گئے تو پھر سٹیٹ بینک نے اپنے طور پر انکوائری کا آغاز اور بے نامی اکاؤنٹس چلانے والے بینکوں کو سزا کیوں نہیں دی؟
9) ایف ایم یو جیسے اہم ادارے کے سربراہ کی تقرری وزیرخزانہ کیوں کرتا ہے ؟ ان تمام سوالوں کا ایک ہی بڑا جواب ہے ، طاقتور سیاسی اشرافیہ اور ان کے بینکار دوستوں کی خاموش ملی بھگت۔ اسحق ڈار ہوں یا کسی دوسرے وزیر خزانہ کا دور، کچھ بھی حیران کن نہیں۔