اسلام آباد: (دنیا نیوز) احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دئیے کہ فریقین کے وکلا کے ساتھ ایک سوال و جواب کا سیشن رکھوں گا، اس کے بعد فیصلہ محفوظ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ڈیکلیئر کیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں، خواجہ حارث اس نکتے پر دلائل دیں کہ ہم نواز شریف کو سچا کیسے مان لیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس اختتامی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ خواجہ حارث کے دلائل پر جواب الجواب میں نیب پراسیکیوشن نے موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ نیب کی تفتیشی رپورٹ نہیں ہے، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکامات پر تشکیل دی گئی، واجد ضیا نے نیب کے تفتیشی افسر کو بیان قلمبند کرایا اور عدالت کے روبرو بھی پیش ہوئے۔
نیب پراسیکیوشن نے موقف اپنایا کہ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ثبوتوں کے انبار موجود ہیں، وہ ٹھوس ثبوتوں کے انبار کہاں ہیں؟ عدالت میں پیش نہیں کرنے تو کہاں کریں گے؟
سردار مظفر نے کہا کہ بارہا موقع ملنے کے باوجود حسین نواز نیب میں پیش ہوئے نہ ہی عدالت میں، حسین نواز اپنے والد کے بے نامی دار ہیں، ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ پانچ سو بارہ کے تحت ٹرائل جاری ہے، نیب نے اپنا کیس ثابت کر دیا، ملزمان کی ذمہ داری تھی کی وہ اثاثوں کے ذرائع بتاتے۔
جج ارشد ملک نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ حارث نے بارِ ثبوت منتقل کرنے سے متعلق جن چار عناصر کا ذکر کیا وہ سول مقدمات سے متعلقہ ہیں، سول مقدمات میں اصل مالک ملکیت ثابت کرنے کیلئے ریکارڈ اپنے پاس رکھتا ہے، اس کیس میں تو الزام یہ ہے کہ اصل مالک نے خود کو چھپانے کیلئے بے نامی داروں کے نام پر جائیداد بنائی۔
نیب کا جواب الجواب مکمل ہونے پر عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے فلیگ شپ ریفرنس میں حتمی دلائل طلب کر لیے۔