لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں اور خصوصاً ملک کو در پیش معاشی بحران پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والا اتحاد اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عزم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ کے برعکس بہت پہلے بلکہ ابتدائی چند مہینوں میں ہی اپوزیشن جماعتوں کا سر جوڑنا اور حکومت کے مقابل آ کھڑا ہونا خطرے سے خالی نہیں اور اس کا کریڈٹ اپوزیشن جماعتوں کو نہیں بلکہ حکومت اور خصوصاً بعض وزرا کو دیا جا سکتا ہے جن کے طرز عمل اور غیر ذمہ دارانہ بیانات نے ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور ایک دوسرے کو سڑکوں پر پھینکنے اور اپنے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرنے والوں کو ساتھ ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا یہ اقدام منتخب حکومت کیلئے واضح پیغام ہے جسے وہ کس حد تک سمجھ پاتی ہے یہ آنے والے وقتوں میں پتہ چلے گا۔
البتہ دیکھنا یہ پڑے گا کہ اپوزیشن کے درمیان یہ اتحاد وقتی ہے یا مستقل ؟ مقاصد کیا ہیں ؟ حکومت سیاسی سطح پر اپوزیشن کا مقابلہ کر پائے گی ؟ فوجی عدالتوں کے تسلسل کیلئے اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے گی اور یہ کہ آنے والے وقت میں سیاسی و معاشی استحکام قائم ہو پائے گا ؟ جہاں تک اپوزیشن کی سر جوڑنے کا سوال ہے تو ماضی میں بھی حکومتوں کے خلاف اپوزیشن اتحاد بنتے رہے ہیں لیکن یہ عمل حکومتی مدت کے تقریباً ڈیڑھ دو سال کے بعد شروع ہوتا تھا۔ جب حکومتیں ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتی نظر آتی تھیں اور عوام کے اندر مایوسی اور بے چینی جنم لینا شروع ہوجاتی تھی۔ اس دوران میں حکومتیں اپوزیشن جماعتوں سے بالواسطہ، بلاواسطہ تعلقات استوار رکھتی تھیں اور حکومتوں کے اندر بعض جہاندیدہ لوگ اپوزیشن کو کسی اتحاد یا انتہائی اقدام تک نہ جانے دیتے تھے ، لیکن یہ سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ پہلے تین چار ماہ میں ہی ایک دوسرے کے بدترین سیاسی دشمن حکومت مخالفت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہو گئے اور اس کا کریڈٹ خود حکومت اور اس کے ذمہ داران کو ہی دیا جا سکتا ہے کیونکہ خود سسٹم کے کپتان عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ میرا بس چلے تو میں 50 مرغوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دوں یہ ان کی کرپشن سے نفرت تھی یا اپوزیشن مخالفت، اس پر دو آرا موجود ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی وزرا اور ذمہ داران کا زیادہ زور اپنی کارکردگی میں اضافہ کے بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور ان کے خلاف گالی گلوچ پر رہا ہے اور جواباً اپوزیشن نے بھی اس عمل میں کمی نہیں کی۔
دوسری جانب اچھا ہوتا کہ اگر حکومت اپوزیشن کی مخالفت کے ساتھ ساتھ عوام کو کسی حد تک ریلیف مہیا کرتی۔ گورننس قائم کرتی، سیاسی تبدیلی کا عمل نظر آتا۔ یعنی عوامی سطح پر اطمینان پایا جاتا تو اپوزیشن پر پرزے نہ نکالتی۔ لوگ ان کی باتوں پر توجہ نہ دیتے اور نہ ہی وہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہوتے نظر آتے۔ کیونکہ ابھی تک اپوزیشن کے کسی ذمہ دار رہنما نے یہ نہیں کہا کہ ہم حکومت گرائیں گے یا اسے چلنے نہیں دیں گے ۔ لیکن خود حکومتی حالات عوامی سطح پر مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث پیدا شدہ رجحانات اور سیاسی محاذ پر درجہ حرارت میں اضافہ سے اپوزیشن کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اجلاس کے شرکا میں سے کسی نے کہا کہ ایشوز پر اتفاق رائے ہوا ہے، کوئی بولا کہ اتحاد ہو سکتا ہے اور سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ اتحاد ہوگیا۔ یعنی کہ یہ سیاسی محاذ پر ایک بڑی پیش رفت سے جہاں تک فوجی عدالتوں کے مستقبل اور تسلسل کا سوال ہے تو سیاسی جماعتوں نے تمام تر تحفظات کے باوجود بالآخر فیصلہ فوجی عدالتوں کے حق میں ہی کرنا ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں بڑا کردار فوج کے ساتھ ان فوجی عدالتوں کا بھی ہے، فوجی عدالتوں کے حوالے سے خود ‘‘بارگیننگ چپ’’ حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے، اس عمل سے ہی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگا۔ کیونکہ فوج کبھی نہیں چاہے گی کہ دہشت گردی کے حوالے سے اپنی کامیابی کو خطرہ میں ڈال دے۔
حکومت نے فوجی عدالتوں کے تسلسل کیلئے کسی بڑی جماعت کو ساتھ ملانے کے بجائے بڑی جماعتوں کو آپس میں ملا دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کا تسلسل تو قائم رہے گا مگر اس کے نتیجہ میں حکومت کمزور ہوجائے گی۔ احتسابی عمل نے اپوزیشن جماعتوں اور اپوزیشن لیڈر شپ کو پریشان کر رکھا تھا اور نیب ان کے گرد قانون کا شکنجہ کستا جا رہا تھا۔ اب ایوان کے اندر اپوزیشن اتحاد کی وجہ سے نہ صرف حکومت پر دباؤ آئے گا بلکہ خود نیب پر اسکے اثرات ہوں گے اور اپوزیشن غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز احتسابی عمل کو ہتھیار بناتے ہوئے احتساب کو چیلنج کرتی نظر آئے گی۔ جہاں تک اپوزیشن اتحاد کے وقتی اور مستقل ہونے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار بھی حکومت کے طرز عمل پر ہوگا۔ حکومتی سطح پر غور و خوض کا عمل اور اچھی سیاسی حکمت عملی اپوزیشن میں تقسیم کا باعث بن سکتی ہے مگر اس کا زیادہ امکان اس لئے نظر نہیں آتا کہ حکومتی محاذ پر نمایاں ہاکس ہیں ان کے پاس عوام کیلئے اپوزیشن کی مخالفت کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا درجہ حرارت بڑھتا رہے گا تو اپوزیشن میں اتحاد قائم رہے گا۔ کیونکہ اس اتحاد کا قیام ہی حکومتی طرز عمل اور حکمت عملی کی وجہ سے ہوا ہے، جہاں تک سیاسی سطح پر اپوزیشن سے مقابلہ کا تعلق ہے تو فی الحال ابھی مقابلہ عوامی محاذ پر نہیں بیانات کے گولے چلانے اور میڈیا کے محاذ پر ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے ، کیچڑ اچھالنے اور کردار کشی کا ہوگا اور اس میں برابر کا جوڑ پڑے گا۔
اپوزیشن اس مرحلے پر حکومت کے خلاف عوامی طاقت کے استعمال سے گریزاں رہے گی کیونکہ ابھی باوجود مشکلات کے حکومت کو غیر معقول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور فی الحال عوام مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر نفرت کا اظہار نہیں ہو رہا ۔ اپوزیشن چاہے گی کہ جب تک عوام حکومتی کارکردگی سے یکسر مایوس نہ ہوں اس وقت تک باہر نہ نکلا جائے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کیلئے فی الحال عوامی سطح پر فضا سازگار نہیں۔ حکومت کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ سنبھل بھی سکتی ہے اور درست حکمت عملی اختیار کر کے بے چینی، مایوسی کا علاج بھی کر سکتی ہے ۔ لہٰذا بجٹ تک کوئی غیر معمولی یا ہنگامی صورتحال طاری ہونے کا امکان نہیں۔ گیند حکومتی کورٹ میں ہے ،حکومت کو اس سے قطع نظر اس کے کہ وہ کیسے بنی اب اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر چل کر دکھانا ہوگا۔ اپنی اہلیت ثابت کرنا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کی دیانتداری کے حوالے سے دو آرا نہیں ان پر کرپشن کے چارجز نہیں لگائے جا سکتے لیکن ایک دیانتدار چیف ایگزیکٹو کے برسر اقتدار آنے کے بعد صرف دیانتداری کو ہی بروئے کار لا کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اس کیلئے اہلیت اور قابلیت کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ اگر اہلیت اور قابلیت نہ ہو تو پھر دیانتداری کسی کام کی ہوتی ہے ،لہٰذا اپوزیشن کے اس اتحاد پر حکومت کو سر جوڑنا چاہئے کہ ایسا کیونکر ہوا اور اپوزیشن سے مقابلہ کیلئے انہیں کیا کرنا ہوگا۔