لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان منتخب ایوانوں کے اندر محاذ آرائی اور تناؤ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہے جو ان ایوانوں کی سنجیدگی اور روایات کے آگے بڑے سوال کے طور پر کھڑا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر ایوان میں نہیں آئے گا تو قائد ایوان بھی نہیں آ سکیں گے۔ حکومت خود پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اس رد عمل کی وجہ وزیراعظم کے ترجمان نعیم الحق کی جانب سے جاری 3 ٹویٹس کو بتایا ہے۔
سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ قوم جن ایوانوں سے اپنی تقدیر کے فیصلوں کی توقعات لگائے بیٹھی ہے وہ سنجیدہ کیوں نہیں۔ کیا پروڈکشن آرڈر حکومت کی صوابدید ہے اور کیا پروڈکشن آرڈر مشروط جاری ہوتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی کا انجام کیا ہوگا۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو جب سے منتخب حکومت وجود میں آئی ہے سیاسی محاذ گرم ہے اور سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہمیشہ نئی بننے والی حکومتیں بر سر اقتدار آنے کے بعد اپنی ترجیحات میں اولین اس مینڈیٹ کو رکھتی ہیں جس کی بنا پر وہ اقتدار میں آتی ہیں اور اپوزیشن بھی نئی حکومت بننے کے بعد بہت حد تک اسے وقت دیتی ہے کہ سیاسی اور عوامی محاذ پر ڈلیور کر سکے لیکن خود قائدِ ایوان اور ان کے ساتھی وزرا کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو اقتدار میں آنے کے فوری بعد انہوں نے اپنے بیانات کے ذریعہ ثابت کیا کہ انہیں اپوزیشن سے اپنا حساب چکتا کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے نظر آئے کہ میرا بس چلے تو 50 مرغے پکڑ کر اندر کر دوں۔ جب وزیراعظم کا یہ بیان سامنے آتا ہے تو وزرا بھی بڑھ چڑھ کر اپوزیشن پر دھاڑتے نظر آتے ہیں اور جواباً اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر رہنما بھی اس طرح کا رد عمل دے رہے ہیں۔
یہ صورتحال اپوزیشن کیلئے تو سازگار ہو سکتی ہے کہ حکومت اپنے اصل ایجنڈا سے ہٹ کر محض بیانات تک محدود ہو رہی ہے مگر یہ صورتحال حکومت کیلئے قطعی طور پر فائدہ مند نہیں، کیونکہ ان کا وقت گزر رہا ہے ۔ ڈیڑھ سو دن پورے ہو چکے ہیں اور تاثر یہی ہے کہ حکومت ٹیک آف نہیں کر پائی۔ حکومت کو خود اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر جلتی پر تیل کا کام حکومتی وزرا کر رہے ہیں یا اپوزیشن اسے بھڑکا رہی ہے۔ جہاں تک پروڈکشن آرڈر پر نعیم الحق کے بیان کا تعلق ہے تو یہ حکومت کا استحقاق نہیں ہے کہ وہ کسی اپوزیشن رہنما یا رکن اسمبلی کو مشروط پروڈکشن آرڈر دے کہ ایوان میں وہ نہ قائد ایوان پر تنقید کر سکیں گے اور نہ ہی حکومت یا کسی اور پر، جہاں تک اپوزیشن کے طرز عمل کا سوال ہے تو اپوزیشن نے وقت سے بہت پہلے قائد ایوان اور خصوصاً وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفیٰ کا مطالبہ کر کے حکومت کو پریشان کیا ہے اور اس کیلئے سانحہ ساہیوال کو جواز بنایا ہے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ حکومت ایک بڑے ایجنڈے کے تحت وجود میں آئی ہے لیکن حالات و واقعات اور رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت بحرانوں کے حل کے بجائے خود بحرانی کیفیت کا حصہ بن رہی ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام لائے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ لیکن اگر حکومت خود اپوزیشن کا طرز عمل اپناتے ہوئے ہر بیان کا جواب دینے اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پالیسی اختیار کرے گی تو پھر اس کے سیاسی قتل کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکے گی، حکومتی حلقوں کا یہ تاثر کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، ادارے ان کے ساتھ ہیں تو انہیں یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ ادارے آئین اور ریاست پاکستان کے پابند ہیں اور وہ اس وقت تک حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے جب تک ان کے پاس عوامی مینڈیٹ رہے گا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور نہ کر پائی تو پھر عوام سیاسی قوتوں کے بجائے کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گے جو ملک و قوم اور خود جمہوریت کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔