لاہور: (تجزیہ سلمان غنی) امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد دوحہ میں ہونے والے طالبان سے چھ روزہ مذاکرات کے بعد مزید مشاورت کیلئے کابل پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوحہ میں طالبان کے ساتھ بنیادی معاملات پر اہم ترین پیش رفت کر چکے ہیں۔ مذاکرات کا یہ دور کچھ معاملات کو لیکر بہت جلد دوبارہ شروع ہوگا اور کوئی بھی معاہدہ کسی چیز کو زیر بحث لائے بغیر نہیں ہوگا۔
اہم ترین نکتہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خود افغانستان کی تین اہم قوتوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے سیز فائر کا معاہدہ ہو گا لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوحہ میں ہونے والی پیش رفت فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے؟ کیا افغانستان کے اندر شمالی اتحاد اور اشرف غنی انتظامیہ سے بات چیت کے عمل میں افغان طالبان بھی شامل ہوں گے؟
زلمے خلیل زاد نے طالبان سے مذاکرات میں قطری حکومت کا تو شکریہ ادا کیا ہے مگر پاکستان کے کردار کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ گزشتہ صدی کی ایک بڑی تبدیلی سوویت یونین کا افغانستان کے پہاڑوں میں ٹوٹ جانا تھا مگر اس صدی کی پہلی بڑی ڈویلپمنٹ شاید مورخ یہی لکھے کہ افغانستان سے برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ بھی واپس جا رہا ہے اور مقامی افغانوں سے امن مذاکرات کے ذریعے ایک با عزت واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔
گو کہ امریکہ میں اوبامہ انتظامیہ کے بعد صدر ٹرمپ کی پالیسی کا بھی اس میں عمل دخل ہے اور وہ امریکہ کے بیرونی دنیا کے جھگڑوں میں الجھاؤ کے بجائے اپنے ڈومیسٹک معاملات پر توجہ دینا چاہتے ہیں، اس لئے مشرقِ وسطیٰ میں بھی شام کے تنازع میں امریکہ نے یکطرفہ اقدامات کرنے کا اعلان کیا اور پھر اب افغان معاملے پر بھی امریکہ نے یکطرفہ جلد بازی سے کام لیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان طالبان کو افغانستان میں ختم کرنے میں امریکی انتظامیہ مکمل تنہائی کا شکار تھی اور اس پر اربوں ڈالر کا بوجھ بھی تھا جس سے اسے افغان انتظامیہ کی فوج اور دیگر انتظامی معاملات میں مشاورت اور تعاون کرنا پڑ رہا تھا۔ مگر اس کے جواب میں افغان وار لارڈز اور سیاسی اشرافیہ طالبان کا کردار ختم کرنے میں ناکام رہیں بلکہ صورتحال اس کے برعکس رہی اور افغانستان کے اندر بہت سا علاقہ افغان طالبان کابل انتظامیہ سے چھین چکے ہیں۔ شاید یہ بوجھ اور پریشانی ہے جو صدر ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں محسوس کر رہی تھی۔
اس کیلئے گزشتہ سال کے شروع میں صدر ٹرمپ نے پاکستان پر ’’ڈو مور‘‘ کا دباؤ ڈالا تھا اور اس سے بڑھ کر ان کا بیانیہ تھا کہ پاکستان نے اربوں ڈالر امداد لی مگر محض دھوکے بازی کے علاوہ امریکہ کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ پاکستان میں بھی سیاسی تبدیلی کا سال تھا اور پھر عمران خان جیسے غیر روایتی سیاستدان نے بھی صدر ٹرمپ کو ٹویٹر بیانات پر خوب جواب دئیے۔
ساتھ ساتھ پاکستان نے اپنا روایتی بیانیہ دہرایا کہ افغان تنازع محض مذاکرات سے حل ہو گا اور پاکستان تمام فریقین کو مذاکراتی میز پر لانے کیلئے کردار ادا کرے گا۔ بعد از خرابی بسیار اس تجویز پر عمل ہوا اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کئے گئے۔ پاکستان نے افغان مذاکرات میں طالبان کی قیادت کرنے والے ملا برادر کو رہا کیا اور پھر مذاکرات کیلئے راہ ہموار ہونا شروع ہوئی۔ ان مذاکرات میں پاکستان کے ساتھ سعودی عرب، امارات اور قطر بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
طالبان نے موجودہ قطر مذاکرات سے پہلے افغان انتظامیہ کو فریق ماننے سے انکار کیا تھا اور ان کی سیاسی حیثیت تسلیم کرنے کے بجائے انہیں امریکی حکام کی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہوئے ملنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مگر شاید امریکہ کے جزوی انخلا کے اعلان کے ساتھ طالبان نے بھی اپنا رویہ نرم کیا اور قطر میں 6 روزہ مذاکرات کے کئی دور ہوئے اس میں اہم ترین معاملات اور انخلا جیسے بنیادی مطالبے پر پیشرفت ہوئی مگر زلمے خلیل زاد نے کسی بھی اعلان سے پہلے افغانستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کی بات کی ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔ مگر ایک بات طے ہے کہ جامع سیز فائر کے معاہدے تک پہنچنا ہے تو پھر طالبان کو افغانستان کے اندر کابل میں اشرف غنی اور دیگر سیاسی کرداروں سے بات چیت کا دروازہ کھولنا ہوگا اور ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اس کی بھی راہ ہموار ہو چکی ہے۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان کا بھی ایک نقطہ نظر ہے کہ اس سارے عمل میں بنیادی کریڈٹ پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے جس نے تمام امریکی دباؤ کو 17 سال برداشت کیا۔ کابل کے الزامات سہے، افغان سر زمین سے دہشت گردی اس کی سرحدوں میں در آئی اور پھر طالبان سے بہت سی غلط فہمیوں اور الجھنوں کے باوجود اس نے اعتماد سازی اور مذاکراتی فضا بنانے میں خلوصِ دل سے کام کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی ایک عرب نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیا اور کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ ایک کردار رہا اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ مگر الجھن اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے ان مذاکرات کے نتائج پر قطر کے کردار کو تسلیم کیا، مگر پاکستان کا ذکر ان کے لبوں تک نہ آیا۔ اندیشہ ہے کہ یہی وہ رویہ ہے جو افغان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان اور امریکہ کے تعاون کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
امریکہ اگر مذاکراتی عمل کے ذریعے افغان مسئلہ کے حل کے قریب ہے تو اس میں پاکستان کا بنیادی کردار شامل ہے اور اسے تسلیم نہ کرنے یا اس کا کھل کر اظہار نہ کرنا سفارتی بددیانتی ہو گی۔ پاکستانی خارجہ آفس اس معاملے پر حقیقت پسندی سے اپنی آنکھیں کھلی رکھے کیونکہ جو فریق کامیابی کا کریڈٹ نہ دے وہ ناکامی کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال سکتا ہے۔